افغانستان اور عالمی برادری

 افغانستان میں طالبان کو حکومت میں آئے بیس ماہ ہوچکے ہیں مگر ابھی تک صرف پاکستان، ترکی سمیت بارہ تیرہ ممالک نے کابل میں اپنے سفارت خانے قائم رکھے یا طالبان سفیر کو اپنے ہاں کام کرنے دیا اور باقی تمام ممالک نے اپنے سفارت خانے بند یا قطر منتقل کردئیے۔ادھر طالبان حکومت نے ایک دفعہ پھر پیش کش کی ہے کہ وہ امریکہ سمیت دنیا بھر کے ساتھ مل کر کام کرنے کو تیار ہے لیکن امریکہ کو اپنی پابندیاں ہٹانا ہوں گی اور افغانستان کے منجمد اثاثے بحال کرنے ہوں گے۔قطر کی الجزیرہ ٹیلی ویژن کی ویب سائیٹ پر شائع اپنے کالم میں طالبان کی عبوری حکومت کے وزیر خارجہ اور سینیئر طالبان رہنما مولوی امیر خان متقی نے طالبان بارے پروپیگنڈے کا جواب دیا ہے، وضاحتیں پیش کی ہیں۔انہوں نے لکھا ہے کہ ایک خود انحصار افغانستان سب کے مفاد میں ہے جبکہ ایک ناکام افغانستان سب کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔ ہمارے نئے رہنما مذاکرات اور خیالات کے تبادلے پر یقین رکھتے ہیں۔ افغانستان کے لیے حالات سازگار ہیں کہ وہ بین الاقوامی برادری کے ایک ذمہ دار اور خود مختار رکن کے طور پر اٹھے اور عالمی امن و سلامتی کو فروغ دینے میں اپنی ذمہ داری پوری کرے۔ "ہمارے خیال میں افغانستان اور دنیا کے درمیان ہم آہنگی شروع کرنے کا ایک منفرد موقع آیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جدید تعلقات کی عالمگیر نوعیت کا مطلب یہ ہے کہ تمام ریاستوں کو ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگی اور امن کے ساتھ رہنا سیکھنا چاہئے۔ ایسے تعلقات مشترکہ مفادات، برابری، باہمی احترام اور تعاون کے اصولوں پر مبنی ہونے چاہئیں۔ اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے افغانستان کی نئی حکومت ایک بار پھر دنیا کی طرف مثبت تعلقات کیلئے ہاتھ بڑھا رہی ہے۔ عالمی برادری کو بھی ہمارے ساتھ سیاسی اور اقتصادی تعلقات استوار کرنے چاہئیں۔افغانستان کی معاشی مشکلات اور افغان عوام کی تکالیف کا سبب بیان کرتے ہوئے انہوں نے لکھا ہے کہ ملک میں جاری معاشی بحران کی بنیادی وجہ امریکہ کی طرف سے بینکاری اور لین دین پر عائد پابندیاں ہیں۔ ان سے انسانی بحران سے نمٹنے کی ہماری کوششوں میں رکاوٹ اور تاخیر ہورہی ہے۔ افغان عوام کے وقار کا احترام کرنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ امریکہ افغانستان کے منجمد اثاثے بحال کر دے اور دوحہ معاہدے کے مطابق تمام پابندیاں ہٹا دے۔ آخر ایک جنگ زدہ ملک پر سخت پابندیاں لگانے کے لئے امریکہ کے پاس کیا اخلاقی اور سیاسی جواز ہے؟امیر خان متقی نے یاد دلایا کہ ماضی کے تجربات ثابت کرچکے ہیں کہ انسانی مصائب کو ہتھیار بنانے کا کبھی مثبت نتیجہ نہیں نکلتا۔ افغانستان کے لیے چار دہائیوں سے زائد عرصے میں یہ پہلا واقعہ ہے۔حکومت نے ماضی کے برعکس افغانستان کا غیر ملکی امداد پر انحصار کم/ختم کرنے کیلئے اقدامات اٹھائے۔ماضی میں حکومتی بجٹ کا دو تہائی سے زائد حصہ غیر ملکی گرانٹس پر مشتمل ہوتا تھا لیکن ہم نے کئی دہائیوں میں پہلی بار اپنا بجٹ مکمل طور پر ملکی آمدنی سے تیار کیا۔ مزید برآں حکومت نے اقتصادی اداروں کو قومیایا ہے تاکہ یہ ادارے اپنے قومی مقاصد کو پورا کریں۔ ہم تمام شعبوں کو "افغانی" بنا اور انہیں مقامی آبادی کی ضروریات کے لیے زیادہ جوابدہ بنا رہے ہیں۔ افغان معاشرے کا اتحاد اور ہم آہنگی پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط ہے۔ ہم اپنے تنوع پر فخر کرتے ہیں اور اکثریت کی مرضی کو اقلیت پر مسلط کرنے میں یقین نہیں رکھتے۔ ہماری نظر میں ملک کا ہر شہری اجتماعی کل کا جزو لاینفک ہے۔ ہم نے ایک پیشہ ور سیکورٹی فورس قائم کی، ملک بھر میں امن و امان یقینی بنایا اور یقینی بنایا کہ کوئی بھی افغانستان کی سرزمین کو دوسرے ممالک کے خلاف استعمال نہ کرے۔ ہم نے منشیات کی کاشت پر مکمل پابندی عائد کر دی مزید برآں ہماری حکومت نے بدعنوانی پر قابو پالیا ہے جب کہ ماضی میں افغانستان بدعنوان ترین ممالک کی فہرست میں سرفہرست تھا۔ ہم نے افغانوں کے لیے اندرونی ااور بیرونی نقل و حرکت سہل کردی ہے۔ یہ بین الاقوامی برادری کے مطالبے کو پورا کرنے کے لئے کیا گیا۔ ہم نے پچھلی انتظامیہ کے تقریبا پانچ لاکھ اہلکاروں کو ملازمت پر برقرار رکھا جب کہ سرکاری شعبہ کے حجم میں اضافہ کیا ہے۔ جنوری میں ورلڈ بینک کی تازہ ترین رپورٹ میں ان پیش رفتوں کا ذکر کیا گیا ہے۔انہوں نے افغانستان کی اندرونی صورتحال پر بیرونی تنقید کے ضمن میں کہا جہاں تک ہمارے داخلی معاملات کا تعلق ہے ان کے بارے میں بدگمانی اور غلط فہمی بہت زیادہ ہے۔جہاں تک امیر خان متقی کے موقف کا سوال ہے تو انہوں نے اپنی حکومت کا موقف تو بہر حال اچھی طرح پیش کیاہے تاہم اس کے ساتھ ساتھ اگر پڑوسی ممالک کے ساتھ بہترین تعلقات خاص طور پر پاکستان کے ساتھ معاملا ت کو سلجھانے کی طرف بھی توجہ دی جاتی تو بہتر ہوتا۔ پاکستان نے ہمیشہ افغانستان میں امن اور خوشحالی کے قیام کیلئے مثبت کردار ادا کیا ہے اور اس حوالے سے دنیا کے دیگر ممالک سے کہیں بہت زیادہ مالی اور جانی نقصانات اٹھائے ہیں۔ تاہم مقابلے میں افغانستان کی طرف سے اس خیر سگالی کا مظاہرہ نہیں کیا گیا ہے جس کی توقع تھی۔ اس طرف اگر توجہ دی جائے تو افغانستان کی مشکلات اور عالمی برادری کے ذہنوں میں اٹھنے والے سوالات کا حل آسانی سے نکل سکتا ہے۔