وہ کون تھا 

یہ میری اپنی غلطی تھی۔ اس اعتراف کرنے میں مجھے اعتراض نہیں۔کیونکہ دوسروں کو اس سے سبق حاصل ہو۔جب اپنی غلطی ہو تو کوئی تسلیم نہیں کرتا۔ہمیشہ دوسروں کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں۔تاکہ ہمارا قصور چھپا رہے۔قصہ یہ ہے کہ اس وقت تک کہ یہ تحریر کاغذ کے سفید کینوس پر قطرہ قطرہ اُتر رہی ہے۔ہم چلنے پھرنے کے قابل نہیں ہیں۔ کیونکہ سر پر الگ چوٹیں ہیں اور ہاتھ جدا زخمی ہے گھٹنا زمین پر رگڑ کھانے کی وجہ سے چھلنی ہے اور ساتھ پاؤں کی انگلیاں بھی اتنی زخمی ہیں کہ اگر ہماری چپلی جو ہم نے پہن رکھی تھی وہ دیکھ لیں تو اندازہ ہو جاتا ہے کے اگر پاؤں میں چپل ہوتے تو ہمارے پاؤں کاکیا حال ہوگا۔کیونکہ ہم اکثر ہوائی چپل پہن کر گھومتے ہیں۔بلکہ تقریبات میں بھی کبھی کبھار چلے جاتے ہیں۔بلکہ کالج میں سیکنڈ ایئر میں تھے تو وہاں بھی چپل پہن کر جاتے۔کبھی میں نہ جاتا تو پروفیسر خالد صغیر ڈار فرماتے آج وہ چپلوں والا لڑکانہیں آیا۔ مطلب کی بات کرنے جا رہا ہوں۔ کیونکہ موٹرسائیکل سواروں میں بلا کی جلدی ہوتی ہے۔ان سے صبر نہیں ہوتا۔بلکہ کسی سے صبر نہیں ہوتا۔ میں نے بائیک پر بابوں کو بھی بیٹھے دیکھا ہے اور نوٹ کیا ہے کہ وہ بھی بے صبری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ہم تو بہت احتیاط کرتے ہیں۔مگر جانے کیا ہوا دو دن پہلے ہمیں رات کے وقت کون سا جنون طاری ہو گیا جو ہم نے ٹرک کے ساتھ ریس شروع کردی۔ پھر وہ بھی مصروف ترین شاہراہ او رگول چوک۔پھر وہ بھی ہم جیسا نابکار انسان جو ٹریفک کے موضوع کو لے کر نصیحتیں کرتا پھرتا ہے۔ وہ ہمارے راستے پر قبضہ کرکے آگے بڑھنا چاہتا تھا۔مگر ہمیں تپ چڑھ گئی‘وہ تو شکر ہے کہ ہم تو اکثر بمعہ اہل وعیال اس مشینی ہوائی گھوڑے پر سوار ہوتے ہیں۔ہم اس رات اکیلے تھے۔میں نے ٹرک ڈرائیور کے ساتھ ضد بازی کا مظاہرہ شروع کردیا۔پھر جرأت بھی یہ کہ ریس بھی ملائی تو بائیک پر سوار ہو کر اور کس کے ساتھ ٹرک کے ساتھ پنجہ آزمائی۔ واہ واہ اب ہمیں زخموں سے چور ہو کر یاد آتا ہے تو اپنے آپ سے الرجی ہونے لگتی ہے۔نتیجہ یہ نکلا کہ ٹرک والے کو تو خبر ہی نہ ہوئی وہ تو اوپر کر کے کہیں بیٹھا تھا۔اس کو نیچے کا منظر نظر ہی نہ آیا کہ اس کے ساتھ کوئی احمق ریس ملار ہا ہے ورنہ تو وہ ازراہِ ہمدری ٹرک کو ایک طرف کھڑا کر کے ہمیں جانے دیتا۔ ایک دھکا لگا اور میں اچھل کر گول چوک میں گولی کی طرح زمین پر ایسا سر ٹکرایا کہ چکرا گیا۔ہیلمٹ نہ پہننے کا یہی انجام ہوتا ہے۔ سر پر ٹھوک بجا کر چوٹ لگی اتنی کہ بال برابرکا فرق تھا اور ایک آنچ کی کسر رہ گئی تھی۔ معلوم نہیں کیا ہوا اتنا یاد ہے کہ موٹر سائیکل پر نگاہ کی تو وہ ٹرک کے نیچے سینڈوچ بنا ہواتھا۔لوگوں دوڑے ہمیں اٹھایا رش میں ایک نیک انسان نے کہ جس کے ساتھ زنانیا ں بھی تھیں آگے آیااو راس نے مجھ کو میرا گرا ہوا موبائل دیا۔ یار ہم جیسے بابوں کو بھی اگر بائیک پر یہ شوق سوجھنے لگے تو پاکستان کی مردم شماری میں بہت حد تک کمی آنے کا امکان ہے۔ہم تو زخموں سے بدن گلزار سہی وہ جسم لے کر رکشے میں بٹھائے گئے اور قریب کے ہسپتال کی سمت دوڑائے گئے۔ہم تو سمجھے کہ بس اب کے زندگی کی اس فلم کا دی اینڈ ہے۔وہاں اس نیک انسان نے جانے کون تھاایک ہاتھ میں میری پھٹی ہوئی چپلی تھام رکھی تھی‘ اس نے کہا نہیں آپ کے پاؤں سے خون نکل رہا ہے‘ میں نے اتنا نہیں سوچا کہ ایک بندہ جو رش میں مجھے بے خودی کی حالت میں میرا موبائل لا کر دے سکتا ہے اس کا بھلا میری پرانی کھڑنک چپلی کیساتھ کیا کام کہ لے کر بھاگ نکلے۔ مگر آفرین ہے اس پر کہ ہسپتال سے جب ہم فارغ ہوئے تو وہ چپلی مستقل طور پر اس کے ہاتھ میں پکڑی رہی اور دوسری میرے پاؤں میں تھی۔ وہ شعر یاد آیا او رابھی یاد آیا ہے ”بہت جی خوش ہوا حالی سے مل کر‘ ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں“۔ ایمرجنسی میں پٹی لگ رہی تھی اور خون بہہ رہا تھا اورمیں نیم بے ہوشی کی کیفیت میں تھا۔ میں نے سوچا کسی کو بلوا لو۔ مگر اس نے کہا نہیں میں ہوں نا۔آپ بے فکر رہیں‘اس نے بلکہ اس مہنگی ہسپتال کا خرچہ بھی کیا میں نے بہت کہا بس ہے یار جو آپ نے کیا وہ میرے لئے بہت بڑا احسان ہے‘ اس نے جواب دیا یہ خدمت کسی کسی کو نصیب ہوتی ہے۔وہ میرے ساتھ گھر تک جا رہا تھا۔ مگر میری حالت سنبھل چکی تھی۔میں نے اس کو روک دیا۔جانے وہ کون تھا او رکیا ماجرا تھا اب تک سمجھ سے باہر ہے۔