دھوم دھڑکا ڈھول ڈھمکا 

جیسے ڈاکٹر کی دوا دن میں تین ٹائم پابندی سے کھانا ہوتی ہے۔ایسے ہی شادی ہالوں میں  اور اس کے باہر ہمہ وقت رش رہتا ہے۔کوئی نکل رہا ہے تو کوئی اندر جا رہاہے۔نہ رات کا پتا نہ دن کا حال معلوم ہے۔ خدا ان کی خوشیوں میں اضافہ کرے۔مگر صورت حال بڑی دل چسپ ہے۔موسم نے جو انگڑائی لی ہے اور سردی کی طرف پھر سے مائل ہے۔وہ یوں کہ بعض گھروں میں تو چھت کے پنکھے اب تلک پرسکون انداز میں جام کھڑے ہیں۔سو اس معاملے کو غنیمت جان کر کہیں منگنی کا پروگرام ہے تو کہیں دیگر خوشیوں کے شادیانے بج رہے ہیں۔شادی بیاہ بارات او رولیمہ کے علاوہ بھی اور مواقع ہیں کہ جن پر خوشیاں منائی جا سکتی ہیں۔ہم نے تو کہا کہ اب سردی گئی اور شادیاں بھی اگلی سردی تک ماضی کا حصہ بن جائیں گی۔ مگر ایسا نہ ہوا وہی دھوم دھڑکا ڈھول ڈھمکا نوبت باجے دم دم والی کیفیت ہے۔ہاں اگر کسی وجہ سے شادیوں میں گاڑی یا رکشے کی راہ میں رکاوٹیں حائل ہیں تو مرد و زن پیدل جا رہے ہیں۔مگر خوشیاں نبھا رہے ہیں۔ہم بھی ایک ولیمہ کی تاک میں بیٹھے ہوئے تھے۔ ہفتہ بھر پہلے سے شادی کا سندیسہ ملا تھا اور گھر میں کہلوا دیاتھا منگل کو شادی ہے ذرا دھیان رکھنا کہ بھول نہ جائے۔کیونکہ پہلے بھی ایک ولیمہ بھول گیا تھا۔ کیونکہ انھوں نے مہینہ بھر پہلے ہی اپنی ذمہ داری کا بوجھ کم کرنے کو عزیزوں کو شادی کارڈ تقسیم کر دیئے تھے۔جس کی وجہ سے واقعی ان پر سے بوجھ کم ہوگیا تھا۔ کیونکہ کافی لوگوں کو تیس دن پہلے سے دعوت پر مدعو کرنے کی وجہ ان مہمانوں کو دعوتی رقعہ گھر میں پڑا ہوا بھی بھول گیا۔اس لئے ہم نے اس بار تو گھر میں سب کو کہہ دیا کہ یاد کروانا میں نے ولیمہ پر جانا ہے۔کیونکہ نہ جاؤ تو خورد و نوش کا معاملہ ہے الگ افسوس ہوتا ہے پھر غیر حاضری سے ہمارے لواحقین ہی خفا ہو جائیں گے۔منگل کا دن بھی اس لئے تھا کہ یہاں تو اب ہفتہ کے سات دن یہی کچھ ہو رہا ہے  کہ ہر آدمی چاہتا ہے کہ ہماری بچی بچے کی شادی جلد از جلد ہو جائے۔مگر ہمارے ساتھ کیا حادثہ ہوا کہ ہم منگل کے روز کا ولیمہ کھانے سے رہ گئے۔اچانک بیمار پڑ گئے۔ جس دوست کے ساتھ جانا تھا او روعدے وعید کئے تھے۔ انھوں نے عین وقت پر پوچھا بھی تو ہم نے کہا یار دیکھ رہے ہو ہماری حالت۔ایسی بری حالت میں شادی ہال پہنچنا بہت برا لگتا ہے۔ہاں خدا نہ کرے بخا روغیرہ ہوتا تو چپکے سے پاؤں سے چپل گھسیٹتے اور تمہارے ساتھ نکل جاتے۔چلنے میں لنگڑا پن ہو تو اگلا کہے گا کہ آرام کرتے نا گھر میں۔یہاں آنے کی کیاضرورت تھی۔ سو بھائیو پشاور کے پشوریوں کا ولیمہ اور اس میں ہم شریک نہ ہوتے ایسا تو ہونا نہیں تھا مگر ہو گیا۔ اب دیکھیں کسی عزیز کو خدا خوشیاں دے ولیمہ بارات کا جواب ہو تو ہم کیوں نہیں جائیں گے۔کشاں کشاں چلتے ہوئے وہاں پہنچیں گے۔اب پٹیاں لگی ہوں اور پاؤں میں لنگ ہو تو الٹا شادی میں بلانے والے کہیں گے ضرورت ہی کیا تھی آنے کی۔سو اس بے عزتی سے بچنے کی خاطر ہم گھر میں مقیم رہے اوروہاں ڈھول بجتے رہے تھے او رانواع و اقسام کے کھانوں سے میزیں لدی پھندی ہوگی۔ ایسے میں آپ خود سوچیں مگر آپ نہ سوچیں وہ حضرات جن کو ولیموں اور باراتوں کے کھانوں کے ساتھ دل بستگی ہوتی ہے آخر ان کے دل پر کیا گزرتی ہوگی۔کیونکہ اب تو اس مہنگائی کے دور میں گھرو ں میں تو اس قسم کے رنگین کھانے تو نہیں کھائے جا سکتے۔ہاں دوسروں کے گھروں میں ضرور تناول فرمائے جا سکتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ شادی ہالوں کے گیٹ پر اب پہلے سے زیادہ رش نظر آتا ہے۔ آپ خودسوچیں مگر نہیں سوچیں جو باراتوں میں شرکت کا اشتیاق رکھتے ہیں وہ ضرور دکھی ہوتے ہیں اگر ان کو بلایا نہ جائے یا وہ کسی وجہ سے شادی میں پہنچ نہ سکیں۔پھر ان کا دنیامیں کوئی نہ ہو تو وہ کسی کی شادی او رکس کے ولیمے میں جائیں گے۔بس گھر ہی میں بیٹھے رہ جائیں گے۔ اب جو کھانے شادیوں میں تقسیم ہوتے ہیں وہ میرا خیال ہے اور ٹھیک خیال ہے کہ ہر کوئی خواہ حیثیت  والا ہو روز گھر میں ان دنوں پکا نہیں پائے گا۔پھر اگر فرض کریں روز بھی کھائے پکائے گا تو ایک دن اس کا دل بھر جائے گا کیونکہ یکسانیت سے بوریت جنم لیتی ہے وہ ضرور ان زرق برق کھانو ں کو چھوڑ کر دال مانگے گا جو کوئی بھی ہو اس وقت کہ دال کی طلب ہو شادی کے کھانوں سے زیادہ لذت دے گی۔