پولن الرجی میں شدت

موسم بہار بہت کے لئے ہر لحاظ سے ایک مثالی موسم ہوتا ہے جس میں نہ تو گرمی ہوتی ہے اور نہ سردی، ساتھ ہی ہر طرف سبزے اور پھولوں نے ایسا ماحول پیدا کیا ہواہے کہ ہر کسی کا دل باغ وبہار ہو کر سبزے میں نکلنے کو کرتا ہے،چھٹی کا دن ہے، بہار کے موسم میں ہلکی ٹھنڈی ہوائیں چل رہی ہیں، شام کے وقت لوگ باغ میں چہل قدمی کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ تاہم یہ صورتحال دنیا کی20 فیصد آبادی کے لئے شاید سازگار یا خوشگوار نہ ہو کیونکہ وہ پولن الرجی کا شکار ہوتے ہیں،خوشنماپھولوں کے درمیان چھوٹے چھوٹے پیلے رنگ کے دانے پولن یازرگل کہلاتے ہیں جوشہدکی مکھیوں اور دوسرے حشرات الارض کے جسم سے چپک کر نرپوووں سے مادہ پودوں تک پہنچتے ہیں بعض پودوں،درختوں اورگھاس کے پولن یعنی زردانے اتنے مائیکروسائزاوربے وزن ہوتے ہیں کہ ہروقت کروڑوں اربوں کی تعدادمیں ہوامیں گردش کرتے رہتے ہیں اور انسان کی سانس کی نالی میں داخل ہوکرحساسیت پیداکردیتے ہیں۔ الرجی کی کئی اقسام ہیں کیمیائی اجزا دواں اوردیگراشیا سے بھی الرجی ہوسکتی ہے کھانے پینے کی اشیا مثلاکیلا،چاول میں سیروٹونین Serotoninالرجی کا باعث بن جاتاہے۔فضامیں موجود انتہائی باریک اوربے وزن اشیا اورذرات جوسانس کی نالی میں داخل ہوکر الرجی پیداکرسکتے ہیں ان میں دھول،مٹی اور پولن گرین وغیرہ شامل ہیں پولن دنیا بھر میں ہوتی ہے جب کوئی پودایادرخت خاص طورپرجن کے پھول نمایاں نہیں ہوتے اپناپولن فضامیں چھوڑ رہا ہوگایہ اس موسم میں زیادہ ہوتی ہے لہٰذااسے موسمی الرجی بھی کہاجاتاہے۔فروری سے موسم بہارمیں اسلام آباد کے شہریوں کوپولن الرجی کی علامات ظاہرہونا شروع ہوجاتی ہیں آنکھوں میں خارش،چھینکیں اورسانس میں گٹھن عمومی علامات ہیں ایمرجنسی اور ہسپتالوں میں رش لگ جاتا ہے،جبکہ اسلام آباد سے لاہورکی جانب 80کلومیٹردورپہنچ کرمریض ٹھیک ہوجاتا ہے اس طرح مارچ اپریل ان کیلئے عذاب بن کرگزرتے ہیں اس کی وجہ جنگلی شہتوت کوقراردیاجاتاہے اس کے علاوہ بہت سے پودے بھی اس کا سبب ہوسکتے ہیں اسی طرح وسط جون سے اکتوبرتک ایبٹ آباد سے سرگودھا تک جنگلی بھنگ کے پودوں میں پولن ہوتا ہے جوشدیدالرجی پیداکرتاہے لاہورمیں موسم بہارمیں سنبل اورگھاس کاپولن اورکراچی میں موسم گرما میں امریکن گھاس اورکیکرکے پولن سے الرجی کے کچھ کیسیزسامنے آئے ہیں اگران علاقوں میں حفاظتی تدابیر کواختیارکیا جائے تو پولن الرجی سے محفوظ رہاجاسکتاہے واضح رہے کہ الرجی ہرکسی کونہیں ہوتی بلکہ ایسے افراد جن میں الرجک پارٹیکلزسے متاثرہونے کی صلاحیت ہوصرف وہی اس کا شکارہوتے ہیں اور یہ کوئی وبائی مرض نہیں ہے لہٰذاایک شخص سے دوسرے کونہیں لگ سکتی الرجی ہونے کی صلاحیت انسان کے اپنے اند ہوتی ہے۔ ایک تازہ ترین رپورٹ کے مطابق جو لوگ پولن الرجی میں مبتلا ہیں مثال کے طور پر بہتی ناک، گلے کی خراش اور بھرائی ہوئی آنکھیں، وہ لوگ اپنی چھٹی کے دن گھر سے باہر جانے سے کتراتے ہیں اور گھر کے اندر ہی رہنا پسند کرتے ہیں۔بہار کے موسم میں پھولوں کے ذرات جنہیں ہم پولن بھی کہتے ہیں، ہوا میں بہت زیادہ مقدار میں موجود ہوتے ہیں، یہ انتہائی چھوٹے ہوتے ہیں جنہیں صرف مائیکروسکوپ کی مدد سے ہی دیکھا جا سکتا ہے۔یہ پولن جب حساس لوگوں کے جسم میں داخل ہوتے ہیں تو یہ جسم میں مختلف علامات پیدا کرتے ہیں، اسے پولن الرجی کہتے ہیں۔پولن کی مقدار گرم اور خشک دنوں میں زیادہ ہوتی ہے جبکہ نمی والے دن ان کی مقدار کم ہوتی ہے۔پولن الرجی کا موسم فروری کے آخری ہفتے سے شروع ہوکر مئی  وسط تک جاری رہ سکتا ہے۔ان دنوں میں چونکہ درختوں اور پودوں پر پھول لگ رہے ہوتے ہیں اس وجہ سے ہوا میں پولن کی تعداد زیادہ ہو جاتی ہے جس کے باعث ہسپتالوں میں پولن کے مریضوں کا رش بڑھ جاتا ہے۔پولن ناک، آنکھ اور منہ کے ذریعے جسم میں داخل ہوتے ہیں۔اس کی وجہ سے ہمارا مدافعتی نظام ہسٹامینز (histamines) نامی کیمیکل پیدا کرتا ہے، جو جلد کی سوزش اور خارش کا سبب بن سکتا ہے۔کئی ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ اپریل کے اوائل سے ہی پولن الرجی کے شکار لوگوں میں چھینک، کھانسی اور سانس لینے میں مشکلات جیسے مسائل میں اضافہ ہوجاتا ہے۔اس کے علاوہ دمہ اور ایگزیما جیسے مریضوں میں پولن الرجی کا بخار زیادہ ہونے کا خطرہ ہے۔بعض صورتوں میں متاثرہ افراد پولن کے حملے سے بچنے کے لیے کالے چشمے پہنتے ہیں، ماسک کا استعمال کرتے ہیں، ناک کے نتھوں کے گرد ویزلین بھی لگاتے ہیں تاکہ پولن ان کے جسم میں داخل نہ ہوسکے۔یہ بیماری کیڑے مکوڑوں یا جانوروں کے بالوں میں پھنسے ہونے کی وجہ سے پھیل سکتی ہے۔ ماہرین ے مطابق پھل دار درخت اور ایسے پھول جہاں شہد کی مکھیاں آنا پسند کرتی ہیں، ان باغات میں جانا اور چہل قدمی کرنا بہتر ہے۔ناشپاتی، سیب اور چیری بلاسم جیسے درخت کے علاوہ گلاب، نلی نما پھول جیسے ڈیفوڈلز، فاکس گلوز، ٹیولپس جیسے پھول کے گرد چہل قدمی کریں۔سب سے پہلے آپ کو پولن کی قسم کی شناخت کرنا ہے جس سے آپ کو الرجی ہے، کیونکہ پولن کی مختلف اقسام ہوتی ہیں۔اگر آپ کو الرجی بہت زیادہ ہے تو دن کے آغاز اور اختتام کے وقت پولن کی سطح عروج پر ہوتی ہے، اس لیے ایسے وقت میں باہر نہ نکلیں۔شام کے وقت درجہ حرارت کم ہوتا ہے اس لیے شام کے وقت گھر کے باہر جانے اور چہل قدمی کرنے کا یہ بہترین وقت ہوسکتا ہے۔