زندگی بہت خوبصورت ہے  

میری بڑی خراب عادت ہے وہ یہ ہے کہ میں کوئی پسندیدہ فلم دیکھ رہاہوں تو اس میں ٹرانسپورٹ ہو جاتاہوں‘ فلم کو دیکھنا بھی اپنی جگہ ایک فن ہے۔وہ یہ کہ مسلسل دیکھتے رہیں جیسا کہ سینما ہال میں دیکھتے ہیں اگر ایک آدھ وقفہ آگیا تو آگیاوگرنہ ہُو کا عالم ہو اس خاموشی میں یہاں وہا ں سے بے نیازہو کر اِدھر اُدھرذہن نہ بھٹکے اور سینما ہاؤس کا ماحول ہو تو مزا آتا ہے مگر بیکار فلم نہ ہو‘ لڑائی مار کٹائی سے بھرپور ہو اور اس میں ایسے خلاف ِ معمول کام ہوں کہ ہیرو جمپ لگا کر اونچی دیوار پر چڑھ بیٹھے اور جب جی چاہے دیوار سے نیچے چھلانگ لگائے تو بچ جائے باقی جو اس کے دشمن ہوں وہ ایک ہی گولی میں مر جائیں ہیرو کو درجنوں گولیاں لگیں اور اس کو کچھ نہ ہو پائے‘ ایسی فلموں سے میری نہیں لگتی جو خلافِ عادات باتوں پر مشتمل ہوں اور معمول سے ہٹ کر اس میں ایسے عناصر ہوں جو عام زندگی میں نہ پائے جاتے ہوں‘ مثلاً قالین ہوا میں اڑ رہے ہوں اور اس پرہیرو ہیروئن بیٹھے ہوں‘ میں تو وہ فلمیں لائک کرتا ہوں اگر چہ کہ سالہا سال سے نہیں دیکھیں جن میں کہانی کو اصل زندگی سے لیا گیا ہوجو عام روزمرہ کی زندگی کے مطابق ہو۔حیران ہو تا ہوں ان لوگوں پر جو ڈھائی گھنٹے تک بت بنے رہتے ہیں‘وہ اس دوران میں 
 خوب لڑائیوں والے سین اور روزمرہ کی فطرت سے ہٹ کر عقل سے دور والے مناظر دیکھتے ہیں پھر پڑھے لکھے او رسمجھدار لوگ بھی اسی طرح فلم دیکھنے میں منہمک ہوتے ہیں اور دانتوں تلے انگلیاں دابائے رکھتے ہیں‘یوں مجسمہ بنے ہوئے بیٹھے ہوتے ہیں جیسے ان کو چھو لو تو ابھی گر جائیں گے‘اب کی جو فلمیں ہیں وہ نئے زمانے کی ہیں‘پھر نئے زمانے کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں جن کے مطابق فلم چلتی ہے‘پرانی او ربلیک اینڈ وائٹ فلموں کی کیا بات ہے‘سٹوریکل ہوتی ہیں نہ لڑائیاں نہ شور شرابہ گھریلو اندازکی دلکش اور اعلیٰ شاعری والے گانوں سے مزین ہوتی ہیں میں تو حالانکہ رنگین فلم بھی ہو تو اول دیکھتا ہی نہیں کہ اس کے لئے ڈھائی گھنٹے فراغت کے درکار ہیں جو ہمارے پا س ڈھائی منٹ کے حساب سے بھی نہیں ہیں‘سو کام دھندے ہیں‘دیکھتے ہوں گے دیکھنے والے او ردیکھتے۔اس
 قدر منہمک اور گم ہو جاتے ہیں کہ ہمیں تو ان کی اس گمشدگی پر افسوس ہوتا ہے کہ یہ لو بھلا یہ بھی کوئی فلم ہے جو یہ دیکھ رہے ہیں پھر اس قدر انہماک سے دیکھتے ہیں کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔ہا ں اگر ہم اپنے ذوق کی فلم دیکھیں تو ہم بھی اس میں اس قدر منہمک ہو جاتے ہیں کہ لوگ تو فلم دیکھ کر واپس آ جاتے ہوں گے مگر ہم تو تین دن تک اسی فلم کے ماحول میں ٹرانسپورٹ ہو کر گم رہتے ہیں‘ ایک فلم دیکھی تھی ایک پروفیسرماضی میں چلا جاتا ہے اور وہاں کسی یونیورسٹی میں پڑھاتا ہے او رپھرمستقبل میں چلاجاتا ہے مگر اس نے واپس اپنے حال کے زمانے میں آنا ہوتا ہے وہ ایک علمی فلم تھی وہ فلم تو ہم نے دیکھ لی اور وہ پروفیسر زمانہ حال میں واپس بھی آگیا مگر ہم اس استاد کے زمانہ ماضی میں سے واپس نہ آ سکے‘تین دن تک اس کا اتنا اثر رہا کہ بلا دروغ میرے ہاتھ پاؤں پھولے رہے خود میرے پاگل ہونے کا اندیشہ مجھ کو خود تھا پتا نہیں لوگ کیسے اس قسم کی فلمیں دیکھ لیتے اور پھر ان کو برداشت کرلیتے ہیں ہم سے تو فلم بھی نہیں دیکھی  جاتی بلکہ ٹی وی تو گھرمیں چوبیس گھنٹے نہ سہی اٹھارہ گھنٹے تو لگا رہتا ہے جس پر ڈرامے لگے ہوتے ہیں۔کبھی کبھار
 کھانا کھاتے وقت یا چائے وغیرہ کے موقع پریا مہمانوں کی آمد پران کے ساتھ بسکٹ کترتے ہوئے ٹی وی پر توجہ دی تو دی وگرنہ تو ہم اتنا بھی ٹائم اپنے پاس نہیں رکھتے کہ بیٹھ کرڈرامہ ہی دیکھیں۔اصل زندگی سے ہٹ کر مصنوعی فضا والے ڈرامہ ہمیں اچھے ہی نہیں لگتے۔مگر ڈراموں میں بھی کہیں کوئی کردار مر جائے تو بہت افسوس ہوتا ہے یوں لگتا ہے کہ سچ مچ کوئی مر گیا ہے‘بہت صدمہ سا محسوس ہوتا ہے‘ انسان کی موت میرے لئے بہت صدمہ کی بات ہے خواہ کوئی بھی مرے۔بس ایک نفسیاتی مسئلہ ہوتاہے جو ہر ایک آدمی کے ساتھ الگ الگ ہوتا ہے‘میرا تو ذہن قبول ہی نہیں کرتا کہ یہ مر گیا ہے دل کہتا ہے زندہ ہے جسم کے مرنے سے روح تو نہیں مر جاتی‘وہی بات ہوتی ہے کہ وہی کردار کسی اور ڈرامے میں نئی شکل و صورت میں زندہ ہو کر آن موجود ہوتا ہے۔یہی حال انسان کی اصل زندگی اور اصل موت کا ہے؛مرنا تو ان معنوں میں نہیں ہے کہ یہ ہمیشہ کے لئے گیا۔ ہمیں مرجانے والے کی زندگی کا ادراک نہیں ہوتا کہ یہ مٹی میں مل کر مٹی ہو چکا ہے اور یہ کل کو کیسے زندہ ہوگا یا یہ اس وقت کہاں ہوگا‘ظاہر ہے کہ عالمِ برزخ میں ہوگا   یہی وہ لاعلمی ہوتی ہے جو ہمیں اس کے جسدِ خاکی کے پاس بیٹھ کر رونے پر مجبور کرتی ہے۔