مجھے کچھ کہنا ہے 

اس شہرِِ بے مثال میں جو ٹریفک کا حال ہے اس میں کیا کمال ہے۔سب زوال ہے اور بے حال ہے۔ایک جال ہے جس کو مکڑی خود بُنتی ہے اور خود ہی اس جنجال میں خستہ حال ہے۔صاحبان ٹریفک کو کنٹرول کرنے کے لئے آئے دن افسران سر جوڑ کر بیٹھے رہتے ہیں۔جب کوئی حادثہ ہواور قابلِ توجہ ہو تو افسران شہر کا ٹریفک پلان نئے سرے سے ترتیب دیتے ہیں۔تاکہ ٹریفک کنٹرول کیا جاسکے۔ پولیس کے ایک سنٹر میں درجنوں سکرینیں لگی ہوئی ہیں۔ہمہ وقت ان کو پولیس کارندے سادہ لباس میں بیٹھ کر دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ دوسرے مراکز پر بھی سرکاری چیکنگ کا یہی حال ہے۔سڑکوں پر نصب کیمرے شہر کے ٹریفک کا حال بیان کردیتے ہیں۔ ہم نے خود اس موضوع پر جاکر ان سنٹروں میں سیر کی ہے۔مگر افسوس یہ کہ وہ آخر کس کس چوک پر نگاہ رکھیں کہ وہاں کون کیا کر رہاہے۔اتنی پولیس نفری کہاں سے آئے جو ٹریفک پولیس کا لباس پہن کر سڑکوں کی مانیٹرنگ کرے۔ مجھے کچھ کہنا ہے وہ یہ کہ جب تک ہم میں خود شعوربیدار نہ ہو ہم نے سدھرنا نہیں ہے۔کتنے ہی رکھوالے ایک ایک فرلانگ کے فاصلے پر کھڑے کر دیئے جائیں۔ مگر وہ ہزاروں ہوکر بھی عوام کے مقابل ان کی نگرانی کرنے سے قاصر ہوں گے۔ جب تک خود عوام اپنی نگہداشت خود نہ کریں کوئی بھی ان کی چیکنگ اور حفاظت کا ذمہ نہیں لے سکتا۔شہر کے اندر تو معروف سڑکوں پرجہا ں رش ہوتا ہے وہاں شام کے ایک گھنٹہ بعد تک بھی ٹریفک والے کھڑے نظر آئیں گے۔مگر بیرونی علاقوں میں جو شہرہی کی حددو میں آتے ہیں شام پڑتے ہیں خود ٹریفک اہلکاراپنی حفاظت کی غرض سے شام کے وقت ڈیوٹی چھوڑ کر شہر کو قسمت کے حوالے کر دیتے ہیں۔جب صورتِ حال ایسی ہو تو عوام کا خود فرض بنتا ہے کہ ٹریفک کے اصولوں کی پاسداری کریں۔یہاں تو حال ہے کہ سینکڑوں ون وے ہیں جن میں مخالف سمت سے آنے والی گاڑیاں گھسی ہوتی ہیں۔موٹر سائیکل تو بے
 شماراور رکشوں کی قطار پھر چنگ بے اختیارساتھ بڑی گاڑیاں بھی کبھی کبھار۔جب یہ حال ہو تو کرچکے ہم ترقی کی منازل کو طے کر چکے۔آئے دن ٹریفک حادثات ہورہے ہیں۔مگر اس  طرف حکومت کیا توجہ دے گی خودعوام ہی اپنی طرف متوجہ نہیں۔جب سے ہم نے درجنوں بار موٹر بائیک پر معہ اہل وعیال ٹھوکریں کھائی ہیں اور خاتونِ خانہ کے سمیت زخمی ہوئے ہیں۔پھر اس پر تازہ ترین ایکسیڈنٹ نے جو ٹرک کے ساتھ ہوا او رہم اکیلے تھے خوب چوٹیں کھائیں۔ پھرشوگر کے زخم لے کر گھر لوٹے ہیں اب دس دن ہونے آئے ہیں،ایک اورعہد کرلیا ہے کہ بائیک کو خیال سے چلانا ہے۔پہلے بھی تو ہم بہت خیال کرتے تھے سڑک کے ایک طرف اور کم رفتار سے جاتے۔ مگر کہتے ہیں کہ جب گیدڑکی موت آتی ہے تو وہ شہر کی طرف آ نکلتا ہے اور پھر سمجھدار آدمی  کی  شامت آئے تو اس سے کوئی غلطی سرزد ہو جاتی ہے۔ ہم سے بھی غلطی ہوئی کہ ہم ٹرک کے مقابل جا ٹھہرے اور ٹھہر کر فوراًہسپتال پہنچے۔سمجھدار بھی ہم کہاں کے  اورکہاں کے دانا تھے مگر جب غلطی ہو تو اس میں دانشور اور عام آدمی ایک برابر ہو جاتے ہیں۔ سو جب تک ہم جس کو عوام کے نام سے یاد کیا جاتا ہے خود ٹریفک کے اصولوں میں ٹریفک سپاہی کا ساتھ نہ دیں تو شہر کا نظام کیسے چلے گا۔ اب ہر وقت تو چارسدہ روڈ کے رنگ روڈ لنک پر پولیس پیادہ کھڑا نہیں رہ سکتا۔اگر وہ کسی کو اس ون وے میں بڈھنی دریا کی طرف جاتے ہوئے دھر لے تو چالان اور بحث و مباحثے اور لوگوں کے جمع ہوجانے میں اتنا وقت
 صرف ہو جاتا ہے کہ اتنی دیر میں اور بہت ٹریفک مخالفت کرنے والے کمر کے پیچھے سے گزر جاتے ہیں۔اب ان کی توجہ ایک طرف ہی مبذول ہو سکتی ہے یہ ممکن نہیں کہ وہ ایک ہی وقت میں چاروں طرف رواں دواں ٹریفک پر نظر رکھیں اور وہ بھی اس حالت میں کہ ہر کوئی ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش میں ہو‘اسی مقام پر کچھ دنوں قبل ایک بس کے نیچے ایک موٹر سائیکل کچلے جانے اور بندے کے زخمی ہو جانے کا واقعہ پیش آیا۔یوں رش میں کار کو دوڑاتے ہیں کہ جیسے انھیں کار کے ٹوٹ پھوٹ جانے کی ذرا پروا نہیں ان کو یہ احساس نہیں کہ وہ کسی کو زخمی کر دیں گے۔جہاں سے گاڑی نے نہیں جانا یہ وہیں سے جائیں گے موٹر بائیک والے تو ذرا پروا نہیں کرتے۔جذباتی انداز سے نکلنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔مگرجب پھنس جاتے ہیں تو انھیں ہماری طرح دن کو بھی تارے نظر آنے لگتے ہیں۔بغیر لائسنس اور بنا کسی تربیت کے گاڑیاں چل رہی ہیں۔چھوٹی ہوں یا بڑی بس چل رہی ہیں اور بسیں تک چل رہی ہیں اور دوڑ رہی ہیں۔بچے جن کے پاؤں زمین کو نہیں لگتے ان کے بائیک تین سواروں کے ساتھ فراٹے بھرتے ہوئے او رہنستے ہوئے بلکہ ہنساتے ہوئے دوڑتے چلے جاتے ہیں۔ان کو نہ تو گھر میں کوئی روکنے والا ہے اور نہ ہی ان کو سڑک پر کوئی ہاتھ دے کر روکے ٹوکے۔ ٹریفک کے مضمون کو شاملِ نصاب کردیں۔ سکول کی ہر کلاس میں  اس پر ایک سبق ہونا چاہئے پھر کہیں فائدہ ہونے کا امکان ہے۔وگرنہ امید نہ رکھیں کہ ہمارا یہ ٹریفک کا نظام بہتر ہو گا۔دیکھا جائے تو ٹریفک کا نظام انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے اور اس کے ذریعے ہی کسی شہر میں آمدورفت کی سہولت اور آسانی سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے اگر ٹریفک نظام درست اور اس میں روانی نہ ہو تو اس کی مثال بالکل ایک جسم میں دوڑنے والے خون کے راستے میں رکاوٹ کی ہے جس سے چلنے پھرنے  اور دوڑنے والا جسم چند لمحوں میں موت کا شکار ہو سکتا ہے۔