شام کی عرب لیگ میں واپسی

مشرق وسطی میں مفاہمت کی ہوائیں جاری ہیں اور ان میں تازہ ترین اضافہ یہ ہے کہ عرب لیگ نے شام کو بارہ سال بعد دوبارہ تنظیم میں شامل کردیا ہے۔بائیس رکنی عرب لیگ میں شام کی دوبارہ شمولیت خطے میں اہم تبدیلیوں کی طرف اشارہ کررہی ہے۔ یہ خطے کے ممالک میں باہمی مخاصمت کے عہد کا اختتام ہے اور ان کے مابین حقیقت پسندی اور مفاہمت کے نئے دور کا آغاز ہے۔یہ شام کی حکومت کے لئے بھی ایک بڑی جیت ہے۔ اس طرح بشار الاسد حکومت کی خطے میں تنہائی ختم ہوجائے گی۔ اگرچہ قطر، کویت اور مراکش اب بھی شام کی بشار الاسد حکومت کو ناجائز سمجھتے اور اس سے تعلقات بحال کرنے پر آمادہ نہیں تاہم دونوں نے شام کی عرب لیگ میں واپسی میں رکاوٹ نہیں ڈالی اور 7 مئی کے اجلاس میں شرکت نہیں کی۔مگر اکثر عرب ریاستوں نے تسلیم کرلیا ہے کہ شام میں بشار الاسد کی حکومت قائم رہے گی اس لیے وہ اس کے ساتھ معمول کے تعلقات کی طرف لوٹنا چاہتے ہیں۔سعودی عرب میں جمعہ کو ہونے والے تنظیم کے بتیس ویں سربراہ اجلاس میں صدر بشار الاسد نے شرکت کی تو بارہ سالوں کی بے دخلی کے بعد علاقائی رہنماؤں نے انہیں گرمجوشی سے خوش آمدید کہا۔ اس سے پہلے عرب لیگ نے سات مئی کو اپنے اجلاس میں شام کی عرب لیگ میں واپسی کی منظوری دی۔سربراہ اجلاس میں تقریر کے دوران بشارالاسد نے کہا کہ یہ سربراہی اجلاس پورے خطے کے بحرانوں سے نمٹنے کا ایک تاریخی موقع ہے۔ مجھے امید ہے کہ یہ ہمارے درمیان یکجہتی، ہمارے خطے میں امن، جنگ اور تباہی کی بجائے ترقی اور خوشحالی کے لیے عرب اقدام کے ایک نئے مرحلے کا آغاز ہوگا۔ شام ہمیشہ عرب دنیا کا حصہ رہے گا۔انہوں نے عرب ریاستوں کے اندرونی معاملات میں عدم
 مداخلت پر زور دیا۔ اندرونی معاملات کو ملک کے عوام پر چھوڑنا ضروری ہے کیونکہ وہ اپنے معاملات خود سنبھالنے کے قابل ہیں۔سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان، بشارالاسد سے گلے ملے اور کہا کہ انہیں امید ہے کہ شام کی عرب لیگ میں واپسی اس کے بحران کے خاتمے کی طرف لے جائے گی۔ امریکہ اور مغربی ممالک بشار الاسد حکومت پر انسانی حقوق کی بے تحاشا خلاف ورزیوں کے الزامات لگاتے آئے ہیں اور اس پر خودبھی پابندیاں عائد کرچکے ہیں اور اپنے
 اتحادی عرب ممالک کو بھی اس سے دور رہنے کا کہتے رہے ہیں تاہم کئی عرب حکومتوں کا خیال ہے کہ امریکہ اور دیگر مغربی طاقتوں کی شام کو تنہا کرنے کی حکمت عملی غیر پائیدار اور غیر دانش مندانہ تھی امریکہ عرب ممالک اور شامی حکومت کے درمیان معمول پر آنے کی مخالفت کرتا رہا ہے لیکن اپنے عرب شراکت داروں کو دمشق کے ساتھ تعلقات کو دوبارہ بحال کرنے سے نہیں روک سکا ہے۔ اگرچہ امریکہ پورے مشرق وسطی اور شام میں موجود ہے تاہم وہ جانتا ہے خطے میں اس کے سیاسی اثر و رسوخ میں بتدریج کمی ہو رہی ہے اور اب مشرق وسطی کے ممالک اہنی مرضی سے اپنے مسائل خود حل کرنے پر مائل ہیں‘یاد رہے اس بار عرب لیگ کے سربراہ اجلاس میں یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے بھی شرکت کی، جو روس کے خلاف لڑائی میں یوکرین کیلئے حمایت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے سربراہ اجلاس سے خطاب بھی کیا۔امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ ہم نہیں سمجھتے کہ شام کو عرب لیگ میں دوبارہ شمولیت کا حق ہے۔ اب جب کہ اکثر عرب ممالک کے ایران کے ساتھ تعلقات چین اور روس کے تعاون سے بہتر ہوگئے تھے تو شام کا بائیکاٹ جاری رکھنا غیر ضروری تھا۔ علاوہ ازیں، چین اب شام اور عرب ممالک میں خوشگوار تعلقات کیلئے کوشاں تھا۔متحدہ عرب امارات  نے 2018 میں شام میں اپنا سفارت خانہ دوبارہ کھولا، اور پچھلے سال اسد کی میزبانی کرنے والی پہلی عرب ریاست بن گئی۔شام کی عرب لیگ میں واپسی  کے کئی عوامل ہیں، جب اس سال چھ فروری کے زلزلے اور 10 مارچ کو سعودی ایران سفارتی معاہدے کے بعد سعودی عرب نے دمشق کے ساتھ مفاہمت کی طرف تیز پیش قدمی کی اور اس نے عرب اور اسلامی دنیا میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے انہیں شام کے ساتھ مفاہمت پر قائل کیا۔یعنی اس تمام عمل میں چین نے اہم کردار ادا کیا ہے اور یہ ایک نیک شگون ہے کہ چین مشرق وسطیٰ میں اہم پارٹنر بنتا جارہا ہے جس سے یہاں امن کے امکانات روشن ہوگئے ہیں۔ ایسے حالات میں کہ جب یورپ میں یوکرائن کا تنازعہ کشیدگی کا باعث ہے اور یہاں پر روس کا مقابلہ کرنے کے لئے نیٹو پوری طرح میدان میں موجود ہے اور حال ہی میں امریکہ نے یورپی ممالک کو اجازت دی ہے کہ وہ ایف سولہ طیاروں کو یوکرائن کے حوالے کر سکتے ہیں جو ایک خطرناک قدم ثابت ہو سکتا ہے   اس حوالے سے مشرقی وسطی میں اگر پائیدارامن کے قیام کا راستہ کھلتا ہے تو یہ نیک شگون ہے۔