بات قابلِ غور ہے

جب کوئی قوم ترقی کرنا چاہتی ہو۔ ہاں ترقی اگر کرنا چاہتی ہو تو۔ سب سے پہلے اسے اپنے تعلیمی نظام کو درست کرنا پڑتا ہے۔ اگر وہ درست ہو تو اس کو مزید نکھارنا پڑتا ہے۔اس نے مجھ سے کہا کہ یاراس بار مجھ کو ووٹ دینا میں نے پوچھا میرے ووٹ کے بوجھ کو سہار سکتے ہو۔ اس پر اس نے حیرانی کا اظہار کیا کہ ووٹ کے بوجھ کا کیا مطلب ہے۔ میں نے سوچا اگر بات اس حد تک نامعلوم ہے تو ہم نے کیا ترقی کرنا ہے۔ باہر کی اقوام کا زیادہ تر وقت تعلیم کی ترقی پر گزرتا ہے۔وہ ان معاملات کے بارے میں بہت سیریس ہو تے ہیں۔ باقی ملکی کام جن اداروں کے ہیں ان کے سپرد کر کے خود فراغت کے لمحات میں تعلیم کے لحاظ سے ترقی کرنے پر غور و فکر کرتے رہتے ہیں۔ کیونکہ تعلیم کی ترقی سے قوم کو جو نادر اور انمول چیز ملتی ہے وہ شعور ہے۔جب ہمیں شعور و آگہی ہی نہ ملے تو ہم کہاں ترقی کی منازل کی طرف گامزن ہو سکتے ہیں۔ ہاں صرف ترقی کانام لینا ہمارے روزمرہ کی عادات میں شامل ہو جاتا ہے۔بس فیشن کے طور پر یہ ذکر کرنے لگتے ہیں۔انھوں نے اپنی قوم کو شعور دیا ہے۔ اپنا حق پہچاننے کا ہنر دیا ہے۔مگر یہ ہنر کاری یوں ہی چلی نہیں آئی۔یہ تعلیم کی کرشمہ کاری سے آتی ہے۔ہمارے ہاں کا تعلیمی نظام زیادہ تر رٹے پر استوار ہے۔مگر وہاں تو نقل کا نظام نہیں عقل و خرد سے کام لیتے ہیں۔وہ جوانی کے تمام تر معاملات کو عین جوانی میں چُکتا کر کے خلائی تسخیر کو نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ کبھی چاند سے ہو کر آجاتے ہیں۔وہ بھی پچاس برسوں پہلے اور پھر مریخ پر اپنے جہاز تو اتار لیتے ہیں۔مگر اب وہ مریخ پر خود قدم رکھنے کی سعی میں کوشاں ہیں جوان لڑکے بیروزگار ہیں اور گلی کے سرے پر منڈلی سجائے ایک موبائل پر سارے جھکے ہوتے ہیں۔ رات کا وقت ہوتاہے اور موبائل کی سکرین کی روشنی میں ان کے چہرے واضح دیکھے جا سکتے ہیں۔مگر نہ تو ان کے ماں باپ کو ہوش ہوتا ہے کہ میرا بچہ باہر کر کیا رہا ہے۔رات کے اس پہر اس کوگھر میں ہوناچاہئے۔پھر نہ ہی گلی محلے کے کسی کونسلر اور سرکاری نمائندے کو اس بات کی پروا ہوتی ہے کہ وہ ان کی اصلاح کرے۔وہاں تو سکول کالج اور یونیورسٹیا ں بنتی ہیں۔وہاں اگر بیروزگاری ہے تو اس کے لئے مہینہ وار اچھی خاصی رقم ملتی ہے کہ نوکری کرنے کی ضرورت نہ پ ڑے ان کو یہ بیروزگاری الاؤنس ہی کافی ہے۔وہا ں کسی کی نوکری کسی کمپنی میں ختم ہو جائے تو وہ اپنے کاغذات بیروزگاری دفتر میں جا کر جمع کر وا کر آ جاتا ہے۔اس کے ساتھ وہ اپنی تنخواہ کی تفصیل بھی وہاں جمع کرواتا ہے کہ میں پرانے ادارے میں کتنی تنخواہ لیتاتھا۔اس کو ہفتہ بھر میں دو تین بار نئی اور اسی تنخواہ کی نوکری کی آفر آتی ہے۔وہ اگر نوکری نہ کرے تو یہ بھی اس کی مرضی ہے۔مگر اس کے ساتھ ایک بات قابلِ غور ہے کہ وہاں اپنے وسائل کا استعمال خوب اچھی طرح کیا جاتا ہے۔ہمارے ہاں کی تعلیم اور ان کے ہاں کی تعلیم میں بھی بہت فرق ہے۔ہم بستہ میں کتابوں کے زیادہ ہونے کو اچھی تعلیم کا معیار سمجھتے ہیں۔ جبکہ وہ سکول کی نچلی کلاسوں میں بچوں کو کتابیں پڑھنے نہیں دیتے۔ان کو وہاں کھیلنے کودنے کا موقع دیتے ہیں۔ریت، مٹی اور پلاسٹک کے بلاکوں کے ساتھ کھیلنے کو چھوڑدیتے ہیں۔یہاں تو بچہ سکول جانے کی عمر پانچ سال سے پہلے دو سال کی عمر میں سکول میں داخل کردیا جاتا ہے۔ تاکہ اس کے خمیرمیں سکول کا بیچ بو دیا جائے۔ کتاب کے وجود کو سمجھنے کے لئے کم از کم کی پانچ سالہ عمر چاہئے۔ پھرکتاب کو اندر سے کھول کر سمجھنے کو تو ساری عمر پڑی ہوتی ہے۔وہاں مغربی ممالک میں بچے کی ذہنی تربیت پرزور دیا جاتا ہے او ریہاں بچے کے سالانہ اور ماہانہ رزلٹ کارڈ کو بچے کی کارکردگی سمجھا جاتا ہے۔ہم کو ابھی تعلیم کے میدان میں بہت سے کارہائے نمایاں سر انجام دینا ہیں۔ ”ستاروں سے آگے جہا ں اور بھی ہیں۔ ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں“۔