بچوں کو ان کی اہمیت کا احساس دلائیں

کمرہ بہت روشن تھا۔ بلکہ اضافی لائٹیں بھی لاکر آویزاں کر دی گئی تھیں تاکہ روشنی میں تقریب کو چار چاند لگ جائیں۔شرکائے محفل کی تعداد تقریباً تیس کے لگ بھگ تھی۔بڑے کمرے کے اس بڑے صوفے پر ننھی براجمان تھی۔ سالگرہ کے دن آج وہ ننھی شہزادی اکیلے ہی سرفرازی کے تخت پر براجمان تھی ۔اس کے سر پر غبارے جھول رہے تھے۔بچے جان کر غبارو ںمیں سوئی چھبو کر دھماکے دار آواز سے محفل کے اراکین کو ڈرانے کی ناکام کوشش میں تھے۔صوفہ کے آگے میز پر بازار سے لایا گیا بیش قیمت کیک دھرا تھا ۔جس پر ننھی کا نام لکھا تھا۔ آج اس کی شخصیت کو معاشرے میں ایک خاص مقام ملا تھا اس کی انا کو تسکین ہو رہی تھی۔اسے معلوم ہوا کہ دنیا میں میرا وجود بھی کوئی چیز ہے ۔پھر یہ کہ اس کو آج خاندانی طور پر تسلیم بھی کیا جارہا ہے۔وہ بجھی بجھی سی بچی آج کھل اٹھی تھی ۔سب کی توجہ میں اس کو اپنی اہمیت کا احساس ہو رہا تھا۔وہ آج زیادہ پر اعتماد لگ رہی تھی ۔زیادہ چست اور فعال طور پرایک کمرے سے دوسرے میںآتی جارہی تھی۔کہنے کامقصد ہے کہ جو بچے اس طرح گھر میں محرومی کاشکار ہوں یا احساسِ کمتری کے قیدی ہو ںتو ان کی سالگرہ انہیں بدل دیتی ہے۔ وہ چست بھی ہو جائیں گے اور ان کی مرجھاہٹ بھی جاتی رہے گی۔ ہم میں بعض لوگ گھروں میں بعض بچوں کو جو پژمردہ طبیعت کے ہوتے ہیں اہمیت نہیں دیتے ۔پھر ہر وقت ان کو جھڑکتے ہیں
 ۔جس سے وہ مزید کمتری کے احساس کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح یہ جب بڑے ہو جاتے ہیں تو ان کے مزاج میں وہی اکھڑپن چڑچڑے پن میں بدل جاتا ہے۔ان کی شخصیت میں کمی رہ جاتی ہے ۔وہ نفسیاتی مریض بن کر معاشرے میں ابھرتے ہیں۔ضروری نہیں کہ سالگرہ کی تقریب بڑے پیمانے پر منائی جائے ۔ اگرسادہ سی تقریب ہو جو اس بچے کے نام پر منعقدکی گئی ہو پھر اس بچہ کو معلوم ہو کہ یہ پروگرام تو میرے لئے ترتیب دیا گیا ہے ۔یا کبھی کبھار مہینہ بعد کہیں قریب کے پارک میں لے جاکر اس کو جھولے دلوا دیئے جائیں تو اس سے بھی بچے کی روزانہ کی کارکردگی بہت بہتر ہو جاتی ہے۔وہ گھر میں اچھا رویہ پیش کر کے زندگی گزار سکتا ہے۔ہم میں سے اکثر ایسا نہیں کرتے ۔بچوں کو اہمیت نہیں دیتے ۔ان کو پڑھنے لکھنے کی مشین سمجھتے ہیں ۔ان کو پڑھنے پر زور دیتے ہیں۔سکول سے آ کر ہوم ورک کرو اور پھر فارغ ہو کر باجی کے گھر جا کر وہاں بھی پڑھائی کرو ۔ اس سے بچہ کی عمر کا روزکا وہ حصہ جو کھیلنے کے لئے ہوتا ہے وہ اسی غیر انسانی رویوں کی پاسداری میں ضائع ہو جاتا ہے۔ہم نے بچوں کو اہمیت دینا ہے۔تاکہ بچوں میں خود اعتمادی قائم ہو سکے۔ہمارے بچے ہمارا مستقبل ہیں آنے والے کل کی بھاگ دوڑ ان کے ہاتھ میں ہوگی۔ ہم تو اپنے اس معاشرے میں بچوں کو جانوروں کے برابر سمجھ کر ان کو سکول سکول اور سکول کا درس دیتے ہیں۔مگر باہر کے ملکوں میں اس طرح نہیںہوتا۔وہاں پڑھنے لکھنے کے لئے بھی بچے کو اپنی طبیعت پر چھوڑاجاتا ہے۔اگرچہ ان پرنظر رکھی جاتی ہے ۔مگر انھیں مجبور کر کے پڑھایا نہیں جاتا۔یہاں تو ہمارے ماحول کا عالم یہ ہے کہ جیسے گدھے کو چابک مارتے ہیںایسے ہم اپنے بچوں کو مار مار کر سکول کا ہوم ورک کرواتے ہیں او ران کو زور زبردستی سکول لے جاتے ہیں۔ جس سے بچے انکاری ہوتے ہیں۔وہ زور کے آگے دب تو جاتے ہیں ۔ مگروہ سکول میںنہیں پڑھتے اور سکول سے ان کی ڈائری میں روز کی شکایات لکھ کر بھجوائی جاتی ہیں۔اس میں خود ہمارا اپنا قصور ہے۔ماں باپ تو سکول والوں پر جاکر غصہ نکالتے ہیں کہ ہم آپ کو بھاری فیسیس دیتے ہیں آپ ہی ان کو پڑھائیں۔اگر ہم نے ان کو گھر پر پڑھانا ہوتا آپ کے اس مہنگے سکول میں کیوں داخل کرواتے ۔یہ آپ کاکام ہے کہ ان کو درست
 کریں۔حالانکہ حقیقت یہ ہے اس میں سکول والوں کا کوئی قصور نہیں ہے۔اس میں سارا دوش ہمارا ہے۔ہم نے گھرمیں پڑھنے لکھنے کاماحول ہی نہیں بنایا ہوا۔تاکہ بچے اس ماحول سے سبق سیکھیں اورکتاب کو ہاتھ میں تھامناشروع کر دیں۔ما ںباپ بہن بھائی میں سے کوئی ایک فرد اگر رسالہ وغیرہ پڑھتا ہوا پایا جائے کوئی ناول کوئی کتاب ماں یا باپ یا کوئی او رپڑھتا ہو تو اس سے گھرکا ایک ماحول بن جاتا ہے ۔ایک بار ماحول بن جائے تو پھر کسی بچے کو کہنے کی ضرورت نہیںپڑتی کہ اوئے بستہ کھول کے بیٹھ نا۔ یہ کیا ہر وقت مستیوں میں غرق رہتے ہو ۔ پھراوپر سے اسے ایک چانٹا بھی رسید کر دیتے ہیں۔کم از کم کی حد تک ہم اتنا بھی کر لیں کہ گھر والے روزانہ اخبار پڑھیں صرف اخبار ہی گھر میں آ ئے اور بھلے کوئی پڑھے بھی نہیں ۔مگر سامنے پڑا رہے تو ایک اخبار بھی پڑھنے لکھنے کاماحول بنا تا ہے۔اگر اس اخبار کو امی ابو لے کر بیٹھے ہوں عینک لگا کر دیکھتے ہوں ۔پھر بہانے سے بچے کو بلا کر پوچھیں دیکھو بیٹا میری تو نظر بہت خراب ہوگئی ہے یہ کیا لکھا ہے تو اس سے بھی بچے میں پڑھنے کی عادت استوار ہو سکتی ہے۔ہاں اگر گھر میں کتاب پ©ڑھنے کا رواج ہے تو یہ بہت ب©ڑی بات ہے ۔اس سے ماحول میں پڑھائی لکھائی کا چلن عام ہوگا ۔پھر کسی بچے کو مار مار کر سکول بھیجنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ پھربچوں کو یہ احساس بھی دلانا ہوگاکہ آپ کوئی فالتو کی چیز نہیںہیں۔