بارش اور گھرکے دریچے 

واہ واہ کیا موسم ہے ۔کیا رُت ہے ۔کیا آب و ہوا ہے کیا فضا ہے ۔جیسے نشہ گھلا ہوا ہے۔چاروں اور بادلوں سے چھن کر آنے والی ننھی بوندیں لبوں پر آن گرتی ہیں۔ اس ٹھنڈک کی وجہ سے تو پورے جسم میں آگ لگ جاتی ہے۔صرف پشاور ہی نہیں اس کے اطراف وجوانب کے شہروں میں بھی یہی کیفیت ہے۔ایک دن گرما کی تپش تو دکھلاتا ہے مگر جلد گرمی کو پسپا ہونا پڑتا ہے۔ایسے میں سفر بہت مزا کرتا ہے ۔کوسٹر کی درمیانی سیٹوں میں سے ایک پرکھڑکی کے شیشے سے سر ٹکائے بیٹھے ہوں اور موبائل پر کوئی سندر گانے کی مدھر دھن کی مدھرتا کانوں میں رس گھول رہی ہو اور اگر گاڑی کا شیشہ پانی کے ننھے قطروں سے بھیگ جائے تو کیا کمال ہوا کیونکہ یہاںآنکھوں کی کھڑکیوں کے سرخ شیشوں میں بھی تو ننھی بوندیں پچھلی کسی حسین یاد کو محسوس کر کے بھیگ جائیں تو کوئی کسی کا کیا کر سکتا ہے۔کون کسی کی آنکھوں میں جھانک کر دیکھتا ہے کہ ان کھڑکیوں پر موسم کے بادل پانی کی بوندوں کی شکل میں کیوں مہربان ہو گئے ہیں۔کچھ دنوں سے سرِ آسمان بادلو ں کا ڈیرہ ہے۔عجب نہیںکہ ابرِکرم برس جائے۔اتنا نہیں برسے کہ گھر آنے والے مہمان وہیں اپنے گھر میں رک جائیں۔ہاں وہ آجائیں تو پھر برسے ۔مہمان تو مہمان ہوتے ہیں ۔پھر اپنے عزیز و اقربا رشتہ دار دوست یار ہوں تو پھر ان کے آنے کے بعد بادلوں کی مشکیں اگر خالی ہونا شروع ہو جائیں تو اچھا ہے تاکہ گھرآئے ہوئے مہمان اگر جانابھی چاہیں تو جا نہ سکیں۔یہ تو شہر کی رش والی فضا میں اس موسم کے مزے لوٹنے والے تو محرومِ زمانہ ہیں ۔ شہر میں ہجوم ہے ۔ہم نے ان کو فون کیا کہ مگر وہ اٹھا نہیں رہے تھے۔ حالانکہ شہر میں رہتے ہیں۔قریبی رشتہ دار اور بہت پیارے میاں بیوی کہ جن سے مل علم و دانش کے جھرنے پھوٹیں اور ہم وہ موتی اپنی جھولی میں سمیٹتے جائیں۔ تین بار کے بعد انھوں نے فون اٹھایا ۔ ہم نے گلہ کیا کہ آپ تو ہمارا فون ہی نہیںاٹھاتے ۔انھوں نے جواب میں فرمایا ہم تو چھت پر تھے موسم کو انجوائے کر رہے تھے۔فون تونیچے کمرے میں تھا۔کہنے لگے آپ کی فیملی کو دعوت دینے والے تھے کہ موسم اچھا ہے کھانے پرآئیں ۔آپ نے فون کردیا ہے تو دل کودل سے راہ ہوتی ہے۔ہم آپ کی راہ دیکھ رہے ہیں۔جلدی سے آئیں۔ وہ شعر یاد آیا ہے کہ ”کنند ہم جنس باہم جنس پرواز ۔کبوتر با کبوتر باز بہ باز“۔یعنی کبوتر کبوتر کے ساتھ اڑتا ہے دوسرے پرندے اپنے ہم جھولیوں کے ساتھ اڑتے ہیں۔سو جس کے ساتھ ذہنی ہم آہنگی ہو دوستانہ بھی خواہ رشتہ داری ہو یا نہ ہو اسی کے ساتھ مزا کرتا ہے۔پھروہ تو ہمارے کالم ریڈر ہیںاور سالوں پہلے کے کالموں کی لائنیں بھی دہرائیں گے کہ آپ نے یہ بات کہی تھی۔موسم کی عجیب صورتِ حال سب کو حیران بھی کئے دیتی ہے اور خوش بھی ۔یہ تو شہر کے باسی شہر کے باہر اوپن ایریا میں آئیں تو ان کو معلوم ہو کہ یہاں کیا مزے ہیں۔درختو ںکی شاخیں ہوا سے جھول رہی ہیں۔کھیت کھلیان لہلہا رہے ہیں بارش کی بوندیں بجائے کھیتوں کو سیراب کرنے کے کہیں آگ ہی نہ لگا دیں۔موسم کی خوشگواری طبیعتوں میں کہیں چستی اور کہیں غمی کی کیفیت پیدا کئے دیتی ہیں۔خدا کرے کہ موسم کی یہ مہربانی جون کے پورے مہینے رہے تاکہ جون کی گرمی سے ڈرنے والے جون کے خوف سے جواندر اندر ڈرے ہیں خوش ہو جائیں۔ ویسے موسم کے انداز اور تیور تین سالوں سے ایسے ہی ہیں۔پچھلے سال گرمی کم مدت کے لئے پڑی تھی ۔اندازہ ہے کہ جون بھی خدا کرے کہ اسی طرح ٹھنڈا گزرے ۔کیونکہ جس خطہ میں ہم رہ رہے ہیں یہاں تو گرمی بھی ٹاپ کلاس کی پڑتی ہے اور سردی بھی اونچے درجے کی پڑتی ہے ۔یہاں موسم کا درمیانہ پن نہیں ہے۔متعدل مزاج بھی گرمی میں جلتے ہیں اور سردی میں کڑھتے ہیں۔بعض گھروں میں جہاں حبس دم کا عالم نہیں ہے وہاں تو کل سے پنکھے مدھم ہیں یابند کر دیئے گے جیسے سردی لوٹ کر آ گئی ہو۔ دور دراز کے اوپری شمالی علاقوں میں برف کی چاندی نے وہ بہار دکھلائی ہے کہ سیربینوں کی نگاہیں سوئے آسماں اٹھتی ہیں اور نیچے آئیں تو گلگت او ربلتستان میں آن کر رک جاتی ہے۔گذشتہ سے پیوستہ ایک روز پہلے سے باہر اوپن ایئر میں سردی کا احساس ہو رہا تھا ۔ہم نے سوچا کہیں بیماری کے کارن طبیعت میں تھکاوٹ اور بخار کی کیفیت در آئی ہے۔مگر دوسرے دن تک یہی احساس رہا تو پوچھا کہ یہ کیا ہے ۔سب نے گواہی دی کہ ٹھنڈک ہو چکی ہے۔مگر کچھ لوگ اس موسم میں بھی یاد آتے ہیں جو بچھڑ چکے ہوتے ہیں ۔ ایک شعر سن لیں ” بارش ہوئی تو گھرکے دریچے سے لگ کے ہم ۔چپ چاپ سوگوار تجھے سوچتے رہے“دوست دار رشتہ دار واقف کار جن سے ملا نہیں جا سکتا جو سات سمندر پار بھی جا چکے ہوتے ہیں ۔ وہ جن سے پشاور کی رونق ہے۔ وہ اس موسم میں بیٹھ کر گپ شپ کا ڈول ڈالتے تو اتنا گہرا کہ ہنس ہنس کو لوٹ پوٹ ہو جاتے۔ خدا ان کو سلامتی دے جہاںبھی رہیں شاد و آباد رہیں۔” رہیں وہ لوگ کہ جن سے جہاں کی رونق ہے ۔ہمارا کیا ہے اگر ہم رہے رہے نہ رہے “۔” تیز بارش سے زمیں پر بلبلے بنتے رہے ۔اور میں اپنے ادھورے خواب میں کھویا رہا “