ترقی و خوشحالی کی بنیاد

غربت کا گراف کم ہونے کے بجائے تیزی سے بڑھ رہا ہے‘سیاست دان‘ہر وہ حکومت جو الیکشن جیت کر اقتدار میں آتی ہے - غریبوں کی حالت بہتر کرنے کا وعدہ کرتی ہے‘ ان کے انتخابی نعرے غریبوںکو یقین دلاتے ہیں کہ ان کے قابل رحم حالات زندگی یقیناًبہتر ہوں گے اور انہیں صحت اور تعلیم کی سہولیات ملیں گی‘مگر ہوتا اس کے برعکس ہے‘ بہر حال بحیثیت قوم ہم غربت اور ناخواندگی کی اپنی تشویشناک حالت کو تبدیل کر سکتے ہیں اگر ہم ان اقوام کو دیکھیں کہ جنہوں نے چند برسوں کے اندر تیسری دنیا کے غریب ممالک سے لے کر کچھ سرکردہ ممالک تک ترقی کی ہے‘آئیے ایک روشن مثال کے طور پر سنگاپور پر غور کریں‘سنگاپور عام طور پر ہماری طرح تیسری دنیا کا ملک تھا ‘ سنگاپور میں تبدیلی اس وقت آئی جب چینی رہنما ڈینگ ژیاپنگ نے سنگاپور کے وزیر اعظم لی کو ایک فارمولہ ایم پی ایچ وضع کیا ایم کا مطلب میرٹ کریسی، پی کا مطلب عملیت پسندی اورایچ کا مطلب دیانتداری ہے‘میرٹ کریسی کا مطلب یہ تھا کہ تمام سرکاری ملازمتیں میرٹ اور اہلیت کی بنیاد پر الاٹ کی جائیں گی، بغیر کسی غور و فکر کے کہ کون ہے‘ یا کون کس سے متعلق ہے‘ سنگاپور میں طالب علموں کو کالجوں اور یونیورسٹیوں میں خالصتاً میرٹ پر داخلہ دیا جاتا ہے، نتیجے کے طور پر سنگاپور کے پاس قوم کو فراہم کرنے کے لئے ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ہنر مند افرادی قوت موجود ہے‘ ملک کی یونیورسٹیاں، میڈیکل کالج اور ہسپتال دنیا کے بہترین تعلیمی و طبی اداروںمیں شمار ہوتے ہیں‘ اس کے مقابلے میں ہمارے ملک میں میرٹ کو اتنی اہمیت نہیں دی جاتی ‘کامیابی کے فارمولے میں پی کا مطلب عملیت پسندی ہے؛سنگاپور کی ریاستی پالیسیاں پاکستان کے برعکس ایک عملی نقطہ نظر پر مبنی ہیں جہاں خسارے میں جانے والے عفریت پاکستان اسٹیل ملز اور پی آئی اے جیسے سرکاری ادارے ہر سال اربوں کا نقصان اٹھاتے ہیں لیکن یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتیں سیاسی دباﺅ کی وجہ سے موثر اقدامات سے ہچکچاتی ہیں‘ گزشتہ سال پی ایس ایم کو پہلے چھ ماہ میں 67 ارب روپے کا نقصان ہوا‘کیا سنگاپور اپنی متحرک معیشت کو برسوں تک اس طرح کے بار بار ہونے والے نقصانات سے دوچار ہونے دے سکتا ہے؟ کبھی نہیں‘ پی ایس ایم نے 2015ءسے اسٹیل کا ایک ٹکڑا نہیں بنایا ہے‘ایچ تیسری دنیا کے غریب ملک سے پہلی دنیا کے ملک تک تیزی سے اضافے کے لئے جادوئی فارمولے کی سب سے اہم خصوصیت‘دیانتداری ہے‘ اس کا مطلب بدعنوانی کے لئے زیرو ٹالرنس ہے‘ سنگاپور کے وزیراعظم، جن کی حکومت میں ملک نے ترقی کی، احتساب اوپر سے نیچے کی طرف کیا‘ شفاف بیوروکریسی اور ترقی کرتی ہوئی معیشت کے باعث ملک غیر ملکی سرمایہ کاری کا مرکز بن گیا۔ سنگاپور کی حکومت اتنی منظم ہے کہ اس نے گھریلو کوﺅں کی آبادی کو کم کرنے کا فیصلہ کیا جنہوں نے پارکوں اور سڑکوں پر لوگوں پر حملہ کرنا شروع کر دیا تھا‘ نیشنل پارکس بورڈ میں وائلڈ لائف مینجمنٹ کے گروپ ڈائریکٹر نے عوامی مفاد میں کوﺅں کے گھونسلوں کو اکھاڑ پھینکنے اور درختوں کی کٹائی کرنے کا حکم دیا۔پاکستان کو بھی سنگا پور کی ترقی کی مثال کو سامنے رکھنا چاہئے اس پر غمل کرکے پاکستانی قوم بھی ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن ہو سکتی ہے۔