زہریلا ماحول

اگر کسی کو ماہرین کی تلاش ہو تو وہ ہم سے رجوع کر سکتا ہے ۔ ہم اپنی ہی فضا کو آلودہ کرنے میں بہت ماہر ہیں ۔ دنیا بھر میں تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ۔دنیابھر میں ماحول کی آلودگی تو اتنی زیادہ ہے کہ دنیا میں آلودگی کی وجہ سے لوگ مر تے جاتے ہیں ۔آلودگی کا موضوع بہت وسیع ہے اور ان دنوں زیرِ بحث ہے ۔پانچ جون ماحولیاتی آلودگی کے خلاف منایا جانے والا دن ہے ۔مگر ہمیں اپنی تاریخ ِ پیدائش معلوم نہیں تو پانچ جون کیسے یاد رہے گا۔جب ایک قوم کا یہ عالم ہو تو اس کو ماحولیاتی آلودگی کیا ہوتی ہے کیا معلوم ہوگا اور پھر اس کا عالمی دن کب منایا جاتا ہے کیسے معلوم ہوگا۔ شہر بھر میں گھوم جائیں ماحولیاتی آلودگی کے قسم قسم کے کھیل تماشے نظر آئیں گے۔کورونا کو بھی ماحولیاتی آلودگی کی وجہ قرار دیا گیا ہے۔خیر نئی نئی بیماریاں اس ماحولیاتی آلودگی کے کارن سامنے آتی ہیں۔مگر اس کا تدارک کرنا او رروک تھام بہت مشکل ہے ۔ان لوگوں کو سمجھاناکہ جن کو اپنے بچوں تک کی تاریخِ پیدائش یاد نہ ہو ان کو بھلا اس بارے میں آگاہی دینا کیا معنی رکھتا ہے او راس کا فائدہ کیا ہے۔رکشوں کے سائلینسر میں سے دھواں نکل رہا ہے اور وہ ٹراتا ہوا سڑک پر دوڑتا جاتا ہے ۔ماحول کو دھوئیں سے بدبو دار کرتا ہوا فضا کو پراگندہ کرتا ہے ۔ بسیں، گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں بھی اس میں ملوث ہیں ۔ بسوں کے سائلینسر تو جیسے دھواں چھوڑنے کی مشینیں ہیں۔یوں لگتا ہے کہ ڈینگی کے علاج کے لئے علاقے میں سرکاری گاڑیاں سپرے کر رہی ہیں۔گاڑی آگے کو جا رہی ہے اور دھواں پیچھے چلا جاتا ہے۔سرِ شام اگر آپ کسی مصروف سڑک کے کنارے کھڑے ہوں تو یقین ہے کہ آپ کو دھوکا ہوگا آپ کہیںگے کہ شام ہے دھواں دھواں اوریوں ہے جیسے بادل آئے ہیں۔مگر غور سے دیکھنے سے معلوم ہوگا کہ وہ بادل نہیںہیں بلکہ دھوئیں کی تہہ در تہہ فضا ہے جو آسمان پرسائبان کی طرح تنی ہوئی ہے ۔فضائی آلودگی سے کیا ہوتا ہے۔آج کا انسان اپنی آنے والی نسلوں کی تباہ کاری کر رہاہے۔ اس کو معلوم نہیں کہ جو میں کررہا ہوں وہ میرے ساتھ دنیا سے واپس چلا نہیں جائے گا۔ کیونکہ ہم رہیں نہ رہیں دنیا کی فضاﺅں میں ہمارے ہاتھ کا پھیلایا ہوا دھواں ویسے کا ویسا موجود رہے گا۔اس کو آنچ بھی نہیں آئے گی۔ ہاں اگر سبزہ ہو درخت زیادہ سے زیادہ ہو ں تو اس آلودگی میں کمی آ سکتی ہے ۔ کیونکہ درختوں کی خوراک یہی دھواں اور فضائی آلودگی ہے ۔ہماری زمین پر دنیا بھر میں جو بھی قدرتی چیزیں ہیں جو قدرت نے بہت فراوانی او رسخاوت سے ہمیں مہیا کردی ہیں ۔مگر ہم اس خزانے کو اپنے ہاتھوں سے نہ صرف لٹا رہے ہیں بلکہ تباہ بھی کر رہے ہیں۔اگر ہم ان خزانوں کی حفاظت کریں تو سمجھو ہم نے اس سلسلے میں بہت کچھ اچھا کر لیا ۔اگر ہم سمجھ جائیں تو پھر کہیں جا کر سمجھیں گے کہ آلودگی کیا ہے ۔پھر تیسرے نمبر پر ہم کو ماحولیاتی آلودگی کو سمجھنا ہے۔ بعد ازاں اس کے برے اثرات کو سمجھنا ہے کہ یہ ناسور ہمیں کس کس طرح نقصان پہنچا سکتا ہے۔ماحولیاتی آلودگی کی بہت قسمیں ہیں ۔صرف فضائی آلودگی کی وجہ سے دنیا بھر میں ستر لاکھ سے زیادہ لوگ ہر سال موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔پہلا عالمی یومِ ماحولیات 1974ءمیں منایا گیا تھا ۔ یعنی تب سے اب تک ہم اس بات کو سمجھ ہی نہ سکے کہ یہ دن آخر کیوں منایا جا تاہے۔بس دن آیا عملی اقدامات تو دھرے کے دھرے رہ گئے۔ اقوامِ متحدہ کے ماہرین اور سرکردہ لوگ اس مسئلہ کے حل کے لئے سر جوڑ کر بیٹھے ہیں کہ آخر اس کا حل کیا ہے۔ کیونکہ ا س سے نہ صرف ماحول خراب ہورہاہے اور مضرِ صحت ہوائیں چلنے لگی ہیںبلکہ موسم میں بھی غیر متوقع تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں جس سے کرہ ارض کے انسانوں کو بہت نقصان ہو رہاہے۔