حد سے زیادہ پڑھانا

بچوں پر پڑھائی کا زیادہ بوجھ ڈالنا فائدے کی بجائے نقصان کا باث ہے ۔پڑھائی ضروری ہے مگر انتہائی حد تک ہر چیز ان کو سکھلانے کی کوشش خود ان کی قابلیت کے لئے زہر قاتل ثابت ہوگی ۔کیونکہ وہ تیار لقموں کے عادی ہو جائیں گے۔کلاس خواہ کوئی بھی ہو بچوں کو ان کے ہوم ورک تو کیا کلاس ورک میں بھی شامل کریں ۔تاکہ ان کا ذہن کام کرنا شروع کر دے ۔وگرنہ آپ اگر ہر بات ان کو سکھلانا شروع کر دیںتو وہ کام کرنے کی عادت بھلا دیں گے۔وہ ہمہ وقت تیار رہیں گے کہ ہمیں کوئی بتلائے کہ ہم کیسے لکھیں کیا لکھیں۔ اس لئے پانچویں کلاس سے لے کر آخری جماعت تک طالب علم کو خود کام کرنے کا موقع دیں۔سٹوڈنٹس پر نظر ہونی چاہئے ۔ ان کو گھر کے لئے کام دیں کوئی اسائنمنٹ دیں تاکہ یہ اپنے اندر چھپی ہوئی صلاحیتیوں سے کام لیں۔ یقین کریں ایک طالب علم کے اندر سب کچھ چھپا ہوتا ہے ۔استاد تو صرف اتنا کرتا ہے کہ ان کی صلاحیتوں کا تعارف خود ان سے کرواتا ہے۔ جن کے اندر وہ خفیہ کارکردگی موجود ہو تی ہے ۔جن کے بارے میں سٹوڈنٹ نہیں جانتے ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ہم نالائق ہیں مگر وہ نا اہل نہیں ہوتے صرف ان کو راہ پر ڈالنے کی دیر ہوتی ہے ۔پھر وہ خود بخود دوڑے چلے جاتے ہیں۔سقراط استادی شاگردی میں بہت مشہورتھا ۔جہاں بھی اس کو موقع ملتا وہ طالب علموں کو لے کر بیٹھ جاتا اور کتاب کھول کر سمجھانا شروع کر دیتا ۔اس کا طریقہ تھا کہ وہ نوجوانوں سے سوالات کرتا پھر جب ان کو ان سوالوں کے جوابات نہیں معلوم ہوتے اور کنفرم ہو جاتا تو پھر وہ ان کو خود جواب دیتا ۔شاگردوں نے ایک دن استاد سے کہا آپ دنیا کے قابل ترین انسان ہیں جو ہمیں بہت کچھ بتلا دیتے ہیں۔اس پر یونانی رمفکر ہزاروں سالوں پہلے کے زمانے کے استاد نے شاگردوں کو جواب دیا کہ ایسی کوئی بات نہیں ۔آپ کی قابلیت میں میرا کوئی کمال نہیں ہے۔ہاں اس مکالماتی انداز سے یہ ہوتا ہے کہ جو کچھ آپ لوگوں کے اندر پہلے سے پڑا ہوتا ہے وہ میں کسی بہانے سے باہر لے آتا ہوں۔سکھانے والا سکھلاتا تو ہے مگر طالب علم کے اندر اگر پہلے سے موجود نہ ہو تو وہ کس طرح سیکھ پائیں گے ۔اس لئے ایم اے کی تعلیم ہو تو کالجوں اور یونیورسٹوں میں کبھی بھی ایک ایک حرف نہیں سکھلایا جاتا ۔بلکہ سب کچھ سٹوڈنٹ پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔مگر ایسا بھی نہیں کہ طلباءکی خبر گیری نہ کی جائے ۔طالب علموں پر بھرپور نگاہ رکھی جاتی ہے۔تاکہ یہ مس گائیڈ نہ ہوں ان کو اچھے طریقے سے گائیڈ کیا جاتا ہے۔ان کو ہوم ورک دیا جاتا ہے۔پھر جو وہ لکھ کر لاتے ہیں ٹیچر ایک ایک کو روسٹرم پر بلا کر ان سے کہلواتا ہے۔تاکہ ان کی شرم جھجک بھی دور ہو اور یہ ریسرچ کرنا سیکھیں ۔انٹر کی کلاسیں کیوں نہ ہو ںسب کچھ سٹوڈنٹس کو نہیں سکھایا جاتا۔ ان سے کہا جاتا ہے کہ فلاں چیپٹر گھرسے پڑھ کر آئیں کل اس پر بات کریںگے کہ اس باب میں کیا ہے کس موضوع پر لکھا گیا ہے اور اس میں خاص خاص باتیں کیا ہے۔اس لئے ٹیچر کی مثال اس چرواہے کی سی ہوتی ہے جو بکریوں کے ریوڑکی قیادت کرنے کو آگے نہیں بلکہ پیچھے چلتا ہے ۔ان کو اگر وہ مس گائیڈ ہونے لگیں تو آخر میں اپنی موجودگی کے مقام پر سے آواز دیتا ہے کہ سائیڈ پہ ہو جا¶ آگے کھڈا ہے ‘ بڑی کلاسوں میں یہی طریقہ اپنا یاجاتا ہے۔خود پیچھے رہ کر طالب علم کو آگے بھیجتے ہیں او راس کے ساتھ اس کی بھرپور نگرانی بھی کرتے ہیں۔بی ایس کی تعلیم کا مقصد ایک لائن میں یہی ہے کہ طلباءکو ایم اے کے بعد مزید ریسرچ کےلئے تیار کرنا ہے۔یہی باہر ملکوں میں بھی تعلیم کا طریقہ ہے ۔جس کو ہم نے یہاں رائج کرنےکی کوشش کی ہے۔گذشتہ دس سالوں سے بی ایس کے نظام میں یہی کچھ ہو رہاہے ۔ تعلیمی نظام میں تحقیق اور جستجو کا عنصر جتنا زیادہ نمایاں ہو گااس قدر بہتر نتائج سامنے آئینگے۔