تعلیم میں رٹے کارجحان

ہمارے ہاں تعلیم کے شعبے کو وہ توجہ نہ جانے کیوں مل رہی جس کا یہ مستحق ہے ۔ اور اس میں کیا شک ہے کہ تمام شعبہ ہائے زندگی کی بنیاد بھی تو تعلیم ہی ہے۔ اگر تعلیم کے شعبے کو سجایا او ر سنوارا جائے اور اس کو مضبوط بنیادوں پراستوار کیا جائے تو تمام شعبہ ہائے زندگی بلکہ پورے معاشرے کی بنیادیں مضبوط ہوں گی۔ہمارے تعلیمی ڈھانچے کوجس عنصر نے کمزور کیا ہے وہ رٹے کا رجحان ہے ۔جبکہ رٹہ لگوانا پڑھانے اور سکھانے کا کوئی اچھا طریقہ نہیں ہے اور پھر خاص طور پر اگر کسی زبان کے سیکھنے کیلئے تو رٹے اور یاداشت سے زیادہ عملی طور پر بولنا ہی اس زبان پر حاوی ہونے کا طریقہ ہے ۔ اگر مقصد ایک زبان سیکھنا ہو نہ کہ صرف مخصوص اسباق کو یاد کرنا اور دہرانا، تو ہمیں ایک مختلف تعلیمی نظام کی ضرورت ہے۔ ہمیں لکھنے سے پہلے پڑھنے، سننے اور بولنے پر بہت زیادہ زور دینا ہوگا۔ ہمارے تعلیمی نظام میں ابتدائی درجات میں بھی تحریر کو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ سوچیں کہ آپ نے بڑے ہوتے ہوئے زبان کیسے سیکھی تھی۔ اگر بچوں کی تعلیم کے ابتدائی سالوں میں ہی زبانی بات چیت پر خصوصی توجہ دے سکیں تو یہ ہمارے بچوں کے لئے معاون ثابت ہوگا۔ایک اور اہم بات یہ ہے کہ تعلیم شعور کا نام ہے۔ اس کا مطلب غور و فکر کرنا ہے۔ یہ درست ہے کہ اس کے لیے یاد کرنا ضروری ہوتا ہے لیکن یہ تعلیم کی حد ہر گز نہیں ہے۔ دراصل تعلیم کی حد تفہیم ہے اور کسی چیز کو سمجھنے کے لیے غور و فکر ضروری ہونا چاہئے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کون سا مضمون پڑھایا جارہا ہے، چاہے کوئی زبان ہو، ریاضی یا پھر سائنس کا کوئی مضمون، چیزیں جیسی ہیں ویسی کیوں ہیں، اس بات کا جواب تلاش کرنا ہی تعلیم ہے۔ تعلیم کو صرف یاد کرنے تک محدود کرنے سے حقیقی تعلیم حاصل نہیں ہوتی۔اس بات سے قطع نظر کہ لوگ تعلیم کی کیا تعریف کرتے ہیں، سمجھ بوجھ، تنقیدی سوچ اور اپنے استدلال کو استعمال کرنے اور آزاد اور خود مختار ہونے کی صلاحیت تعلیم کی ہر تعریف میں کلیدی اور لازمی عناصر ہوں گے۔ تعلیم میں غوروفکر، استدلال اور وجوہات جاننے کا ایک خاص مقام ہے۔ ایک تعلیم یافتہ شخص دلائل کی بنیاد پر اپنی سوچ، عمل اور اپنے وجود کے حوالے سے متحرک رہتا ہے۔اگرچہ یاد کرنا اور دہرانا تعلیمی طریقہ کار میں شامل کیے جاسکتے ہیں لیکن اگر پورا تعلیمی طریقہ کار ہی رٹے پر مبنی ہو تو یہ غلط ہے۔ اس نظام سے ایسے لوگ تیار ہوں گے جو اپنے طور پر سوچنے کی صلاحیت سے محروم ہوں گے اور وہ استدلال اور وجوہات کو بہتر انداز میں استعمال کرنے کے قابل نہیں ہوں گے۔ جب یہی طلبہ جامعات اور عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں تب ہمیں رٹہ لگانے کی اسی روایت کے نتائج نظر آتے ہیں۔ وہ اپنی شخصیت کی تشکیل میں مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔ وہ ہر معاملے میں دوسروں کی توثیق کے منتظر رہتے ہیں، وہ قیادت کے بجائے دوسروں کی پیروی کرتے ہیں۔ ہمیں ایسے نوجوان درکار نہیں کیونکہ انہیں تو ہمارے مستقبل کا رہنما بننا ہے۔تعلیم کے شعبے میں یکساں نصابِ تعلیم یا اس طرح کی کسی بھی تبدیلی سے زیادہ، پڑھانے کے طریقہ کار میں تبدیلی کرنا ضروری ہے۔ اگرچہ یہ دشوار کام ہے لیکن ملک کی اگلی نسل کی تعمیر میں یہ ہمارے لیے انتہائی منافع بخش ثابت ہوسکتا ہے۔اس وقت جو ممالک ترقی کی بلندیوں کو چھور ہے ہیں اور ٹیکنالوجی کی بدولت دنیا پر راج کررہے ہیں تو انہوںنے تعلیمی ڈھانچے کو مضبوط بنیادوںپر استوار کیا ہے جس کے اثرات اب ان کی ترقی کی صورت میں سامنے آئے ہیں‘ ہم بھی اگر چاہتے ہیں کہ دوسرے ممالک سے مدد لینے کی بجائے خود دوسروں کی مدد کرنےوالے بنیں تو اس سلسلے میں اولین ترجیح کے طور پر تعلیمی ڈھانچے کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنے کی طرف توجہ دینا ہوگی اور اس میں مزید تاخیر کی گنجائش ہر گز نہیں۔ اس وقت تو یہ حالت ہے کہ تمام شعبہ ہائے زندگی کے مقابلے میں ہماری توجہ تعلیم کے شعبے کی طرف کم ہے اور اس کا نتیجہ آج سب کے سامنے ہے کہ تعلیم کے شعبے میں ہم دوسرے ممالک سے کئی دہائیاں پیچھے رہ گئے ہیں ۔