شارق جمال 

وہ پشاو رکے تھے‘یہاں ہم اکٹھے ایک ہی سکول میں پڑھتے۔مشن ہائی سکول کوہاٹی گیٹ میں میٹرک تک ہم نے ایک ہی جگہ تعلیم پائی۔پنجاب پولیس کے ڈی آئی جی شارق جمال تھے‘پھر میرے عزیز دوست کوہاٹی دروازے  ہی کے رہائشی سلیم اختر جو اب گذشتہ چالیس سال سے لندن میں مستقل طور رہائش پذیر ہیں مگر شارق نے اپنے لئے دوسری سکون کی جا پنجاب اور خاص لاہور کو ڈھونڈرکھا تھا اول تو ان کی والدہ پنجاب کی تھیں اورساتھ ہی ان کی شادی بھی پنجاب سے ہوئی تھی‘اس مختصر کالم کے فریم میں ان کی شخصیت کااحاطہ کرنا اس وقت ایک گراں تر کام ہے‘اپنی اچانک وفات کے وقت وہ اکیس نمبر سکیل میں جانے کے بعد عنقریب ایڈیشنل اے آئی جی تعینات ہونیوالے تھے‘شارق نے اپنے لئے دوسرا مسکن ڈھونڈ ہی لیا‘ ہاں نا کب تلک کوئی اس جہاں میں رہ سکتا ہے۔اس کا ایک شعر مجھے بہت یاد آتا ہے ”کوئی مسکن ہو دوسرا شارق۔ کب تلک اس جہان میں رہنا“ان کا یہ شعر دہراتے ہوئے ہمارے ایک اور پیارے دوست جاوید اقبال منیجر نیشنل بنک روپڑے‘ شارق ان کے بہت قریب تھے‘آئے دن شارق کے پاس لاہور چلے جانا اور ویک اینڈ گزار کر واپس آ جانا‘بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ شارق تھے تو پنجاب پولیس میں اور وہیں رہے مگر پشاور میں ہماری سکول کی کرکٹ ٹیم تھی‘ وہ اس ٹیم کے سرگرم رکن تھے‘سکول کی ٹیم کے علاوہ ہمارا اپنا ایک کرکٹ کلب تھا اس کا نام فرینڈز الیون تھا اگر وہ سی ایس ایس نہ کر لیتے تو پاکستانی کی قومی کرکٹ ٹیم کے کھلاڑی ہوتے‘ مقابلے کے امتحان میں بھی تو تیس سال پہلے نہیں بیٹھتے تھے‘ان کے دوستوں نے جب تیسری بار انکا فارم زبردستی جا کر اسلام آباد میں جمع کروایا تو کسی کو کیا معلوم کہ وہ سی ایس ایس میں ٹاپ کریں گے‘اس کے بعد  انہوں نے سچ مچ اپنا دوسرا مسکن پنجاب پولیس تلاش کرلیا تھا‘ ا سکے بعد وہ پنجاب ہی میں رہے اور تاوقتیکہ قضا نے آ نہ لیا وہ حاضر سروس زندگی میں موت کی آغوش میں چلے گئے۔انکی زندگی کا ایک پہلو اور اس کے بعد ایک اور مزید پہلو ہے‘ وہ کالم نگار بھی تھے پاکستان کے مشہوراخبارمیں انکے کالم بھی ”پسِ آئینہ جم“ کے نام سے شائع ہوتے رہے‘عطا ء الحق قاسمی نے اپنے ایک کالم میں انکی شاعری پر خوب تبصرہ کیاہے ”آتش زیرِ پا“ کے نام سے انہوں نے شعری مجموعہ یادگار چھوڑا ہے اسکے بعد ان کاایک مجموعہ سامنے آیا ”فسانہئ کون و مکاں“۔ان دو کتابوں کی شاعری پڑھنے لائق ہے‘آخر آخر وہ فیس بک پر لاہور کی ادبی تنظیموں کی جان نظر آئے‘ریختہ کے مشاعروں میں اپنے شعر سناتے ہوئے ملے‘انتہائی درجے کے نفیس انسان تھے مگر یہ نفاست ان کے افسر بن جانے کے بعد نہیں بلکہ وہ بچپن سے اسی نفاست کے زیرِ سایہ پلے بڑھے‘وہ اصلاً تو پشتون تھے مگر ہماری گفتگو ہندکو زبان میں ہوتی‘وہ دونوں زبانیں روانی اور فراوانی سے بولتے‘ پھرپنجاب جانے کے بعد وہ پنجابی سے یوں وابستہ ہوئے کہ پیچھے مڑ کر نہ دیکھا۔جب پشوری دوستوں سے ملتے تو ہنسی مذاق کا گول گپا بن جاتے‘ شاعر بہت اچھے تھے‘اس دور میں کہ پولیس او رپھر پنجاب پولیس کی ذمہ داریاں سنبھالنا اور پھر شاعری کرنا پھر کالم لکھنا یہ تمام کام اپنی جگہ الگ الگ مشکل ہیں مگر وہ کرتے تھے اور ٹھیک ٹھاک کرتے تھے‘ ایک پہلو یہ کہ وہ انگریزی اخبار میں بھی کالم لکھتے تھے‘ میں منیجر دوست کے پاس بیٹھا ہوتا تو کبھی شارق جمال کا تذکرہ چھڑ جاتا۔ مگر کبھی ان کے بارے میں کوئی نیگٹیو بات سننے میں نہیں آئی‘یہ کتنی اچھی بات ہوتی ہے کہ مرنے کے بعد کسی کو کیا اچھے الفاظ میں یاد کیا جائے بلکہ اس کے جیتے جی اسکے پیٹھ پیچھے اسکی اچھائی بیان ہو رہی ہو۔