آج کیا پکائیں 

 بندہ اب کتنی سبزیا ںکھائے ۔پھر اگر سبزی سے ہٹ کر گوشت قیمہ بھی کھاتا پھرے تو آج کل بلڈ پریشر اور موٹاپے کے اتنے مسائل جنم لے چکے ہیں کہ ہر بار کھاتے ہوئے بلند فشارِ خون کے مریضوں کو ہر طرف نگاہ رکھنا پڑتی ہے کہ کیا کھائیں کیا نہ کھائیں۔ اب بعض لوگ گوشت قیمہ اور اس قبیل کی دوسری خوراکوں سے الرجی محسوس کرتے ہیں ۔ وہ بھی آخر تنگ آ جاتے ہیں کہ کتنی سبزیاں کھائیں ۔ بازاروں میں تو گنی چُنی سبزیاں ہیں ۔ وہی آلو ٹماٹر کدو ٹینڈا بھنڈی اور تھوڑی اور اقسام ہیں اور روزانہ سبزی والے کی دکان میں سجی ہوتی ہیں۔ بندہ اگر سونا بھی روز کھاتا ہو تو اس یکسانیت سے بور ہوجاتا ہے۔کیونکہ بور ہونا تو یکسانیت کے ساتھ بندھا ہوا ہے۔ایک زمانہ ہوتا ہے کہ ینگ ایج میں بندہ پتھر ہضم لکڑ ہضم خوراکیں کھاتا ہے ۔کہیں پائے کھائے جا رہے ہیں تو کہیں اوجھڑی کہیں کلیجی مغز اور مرغی کے پوٹے تناول فرمائے جا رہے ہیں ۔ مگر آخر کب تک ایک ایج ایسی آتی ہے کہ سخت چیزیں دانتوں تلے آ کر دانتوں کی بنیادیں ہلا دیتی ہیں۔ بلکہ اور چیزوں کو تو چھوڑیں صرف آٹے والی روٹی ہی کام کی نہیں۔ گھنٹہ بھر دسترخوان میں لپٹی پڑی رہے تو تختہ بن جاتی ہے ۔اسے بھلاکون چباسکتا ہے۔ ہائے کیا زمانہ تھا جب یہ کچھ نہ ہوتا تھا ۔جو کھایا ہضم ہو جاتا اور پھر سے بھوک چمک اٹھتی ۔اب تو مشکل سے صبح چائے پی لو اور روغنی کی ایک قاش کھا لو تو معدہ ہضم کرنے کے قابل نہیں رہتا ۔سینے پہ تھوڑا بہت کھایا پیا بھی بیٹھا رہتا ہے اور جلن کا سامان تیا ررہتا ہے۔پراٹھا بھی اب ہر کوئی نہیں کھا سکتا ۔گھر میں پکا¶ تو بھی دل جلائے اور باہر سے لے چالیس کا ایک تو دل کے ساتھ دماغ بھی جلائے ۔ گرمی اور سردی میں قدرت نے اپنے اپنے راز چھپا کر رکھے ہیں ۔سردی ہو تو بھوک بہت لگتی ہے اور گرمی میں بندہ پانی پیتا ہے ۔روز صبح ناشتے کے بعد اس بات پر ایک معمولی دورانیہ کی گفتگو ضرور چھڑتی ہے کہ آ ج کیا پکایا جائے ۔مگر کوئی کسی فیصلے پرحتمی طور پر نہیں پہنچتا ۔آخری فیصلہ جو صادر ہوتا ہے وہ یہ ہوتا ہے ےہ کہ بس یار جو بھی پکا ہو ٹھیک ہے ۔ حالانکہ درجنوں اقسام کی ڈشیں ہیں ۔ صرف ایک چکن ہی کو لیں بیسیوں انداز سے پکایا جا سکتا ہے۔یہ سب لذتِ زباں کا حاصل ہے کہ چکن کو کس طرح سے پکایا جائے۔ مگر پھر مہنگائی بھی تو کوئی پھر کھائے تو کیا کھائے کہ جو ارزاں بھی ہو اور کام بھی چلے اور منہ بھی چلتا جائے دالیں ہیں اورقسم قسم کی دال ہے ۔ چھولے کلول ہیں کیا کچھ نہیں ہے ۔مگر مسئلہ کچھ اور ہے ۔ وہ یہ کہ گھر کے افراد میں سے ایک بندہ کچھ اور کھانا چاہتا ہے اور دوسرا فرد کچھ الگ کھانا چاہتا ہے ۔یہاں آکر ان کی مرضی کے درمیان میں کلیش آ جاتا ہے۔ سردی ہو تو اس کی الگ سبزیاں ہیں جو صرف سردی کے موسم کے ساتھ منسوب ہیں ۔گھر میں کوئی ایک کھانے سے انکار کرتا ہے تو دوسرا کسی اور چیز کو ہاتھ لگانے سے کتراتا ہے۔یعنی ہر کسی کی الگ الگ پسند اور ناپسند ہے اس لئے تو یہ مسئلہ روز کھڑا ہوتا ہے کہ آج گھر میں کون سی چیز پکے گی تاہم گوشت ایک ایسی نعمت ہے اور چکن کہ اس سے کسی کو صاف صاف انکار نہیں ہوتا ۔اس طرح اب ہر دال ہر آدمی کو نہیں بھاتی ۔ ہمیں تو پوچھو تو ہم دال چنا بہت شوق سے کھاتے ہیں۔ پہلے پہل بچپن میں ہمارے بھی بہت نخرے ہوتے تھے۔ یہ نہیں کھا¶ں گا وہ نہیں کھا¶ں گا۔ ماں تو عاجز آ جاتی تھی ۔خاص دال مسور سے تو ہمیں برانڈڈ الرجی تھی ۔ مگر اب یہ حال ہے کہ خدا کاشکر ادا کر کے ہر چیز کو ہاتھ ڈالتے ہیں ۔سب کچھ کھاتے ہیں۔ کیونکہ خودکماناپڑتا ہے۔ویسے معلوم نہیں یہ عمر ہی ایسی ہوتی ہے یا کوئی اور وجہ کہ اب توہمیں دال مسور بڑے شوق سے کھانا ہوتی ہے۔اس پر گھر والے سبز مرچیں تل کر گھی کا تار دے کر دستر خوان پر سجا دیتے ہیں۔پھر اتنی پیشکاری اورمزے کی ڈش ہو تو بڑے بڑے انکار کرنے والے بھی کالی مرچ ڈالی ہوئی مسور کی دال کو قیمہ گوشت کی طرح عزیزِ جاں سمجھ کر کھا جاتے ہیں۔پھر سچی بات یہ ہے کہ گزری ہوئی عمر میں کھانے پینے کی چیزیں تو کیا ہر چیز کی قدر آ جاتی ہے۔بندہ بغیر کسی اعتراض کے کھاتا جاتا ہے۔کیونکہ خدا کی نعمتیں ہیں اور بے شمار اور بے حساب ہیں ۔ کیوں نہ بندہ انجوائے کر کے کھائے ۔ہاں بیماروں کی بات اور ہے کہ کسی کو شوگر نے ستا رکھا ہے اورکسی کو بلڈ پریشر نے وہ بل دیئے ہیں کہ وہ تو حلوہ اور صبح چائے کے ساتھ انڈا بھی کھاتے ہیں تو سوچ سمجھ کر اور رسک لے کر تناول فرماتے ہیں۔