پورے ملک کے بارے میں رائے زنی سے شاید قاصر ہوں لیکن خیبر پختونخوا کی پرانی جامعات گزشتہ کچھ عرصہ سے جس بد حالی کا سامنا کررہی ہیں ایسے میں یہ کہنا ہرگز بجا نہیں ہو گا کہ باری باری اقتدار میں آنے والے یہ بات شعوری طور پر اپنے دل سے کہہ رہے ہیں کہ تعلیم کے بغیر ترقی ممکن نہیں یعنی یہ کہ تعلیم ہی ترقی کی حقیقی بنیاد ہے صوبے میں سب سے پرانی درسگاہ تو اسلامیہ کالج ہی ہے مگر وہ تو سال 2008ءتک پشاور یونیورسٹی کے کالج کے طو رپر خدمات انجام دیتا رہا۔ پشاور یونیورسٹی، گومل یونیورسٹی، زرعی یونیورسٹی اور انجینئرنگ یونیورسٹی خیبر پختونخوا کی پرانی جامعات ہیں اس کے بعد ہزارہ یونیورسٹی اور ویمن یونیورسٹی پشاور کا نمبر آتا ہے ویسے تو صوبے میں گزشتہ دو عشروں کے دوران سرکاری یونیورسٹیوں کی تعداد تین درجن کے قریب پہنچ چکی ہے جن میں چند ایک پروفیشنل یونیورسٹیاں یا کیمپس بھی شامل ہیں لیکن بلا شبہ جنرل یونیورسٹیوں میں سب سے بڑی یونیورسٹی اب بھی جامعہ پشاور ہی ہے جس کے اخراجات میں بتدریج اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ مالی سال 2023-24 کابجٹ لگ بھگ پانچ ارب روپے کا تیار کیا گیا ہے جسے حکومت نے کوئی معاونت کئے بغیر کوئی گرانٹ دیئے بغیر اس لئے روکا ہوا ہے کہ بجٹ میں اتنا بھاری خسارہ کیوں ہے؟ حکومت کے اس انجانے پن کے جواب میں جامعہ کے ٹریژری سیکشن کی یہ بات بڑی زبردست اور بجا معلوم ہوتی ہے کہ حکومت ملازمین کی تنخواہیں روک لے تو خسارہ خود بخود ختم ہو کر بجٹ سرپلس ہو جائے گا ۔یونیورسٹی کے پانچ ارب کے بجٹ میں اپنے ذرائع سے جو آمدنی ظاہر کی گئی ہے وہ زیادہ سے زیادہ دو ارب روپے ہو گی۔ باقی رہے تین ارب روپے تو کوئی بتادے کہ وہ کہاں سے آئیں گے ؟ کیونکہ تعلیم کے شعبے میں حکومتی کارکردگی کا تو یہ عالم ہے کہ ابھی جولائی کے مہینے کی تنخواہوں کے لئے یونیورسٹی کو220 ملین جبکہ پنشن کی ادائیگی کے لئے 200 ملین روپے کی ضرورت تھی مگر حکومت کی طرف سے محض218 ملین روپے کی گرانٹ فراہم کی گئی ۔اب یہ بھی معلوم نہیں کہ یہ گرانٹ ایک مہینے کے لئے ہے یا تین مہینے کے لئے ؟ کیونکہ انجینئرنگ یونیورسٹی کے مالیاتی شعبے کے ذرائع سے معلوم ہوا کہ یونیورسٹی کو جولائی کے اخراجات کے لئے 16 کروڑ روپے درکار تھے جبکہ حکومت نے تین مہینوں کے لئے13 کروڑ روپے بھجوا دیئے ہیں ایسے میں یہ توقع رکھنا کہ ملک تعلیم و تحقیق کی بدولت ترقی کرکے آگے بڑھے گا ‘ ملک میں ایک پرامن تعمیری روشن خیال اور متمدن معاشرہ قائم ہو گا اور انتہا پسندی ‘ مایوسی اور جرائم کا خاتمہ ہو جائے گا یقینا ایک بھول ثابت ہو گی اب ایسی ابتر حالت میں وزیر خزانہ صاحب کے اس اعلان پر عملدرآمد کا کیا بنے گا ؟ جو انہوں نے اپنی بجٹ تقریر میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں بالترتیب 16 گریڈ تک کے لئے35 فیصد جبکہ اس کے اوپر کے لئے30 فیصد اضافے کیساتھ ساتھ پنشن میں17.50 فیصد اضافے کی شکل میں کیا ہے ؟ کیونکہ یونیورسٹیاں بالخصوص پشاور یونیورسٹی جیسی پرانی درسگاہ جہاں پر آمدن کے کئی ذرائع بھی ہیں اور اس کے باوجود تنخواہ پنشن اور مراعات کی ادائیگی سے قاصر ہے جبکہ گزشتہ سال کا15 فیصد اضافہ بھی تاحال یونیورسٹی کے ذمے واجب الادا ہے تو اس نئے بھاری بھرکم اضافے کے اعلان پر عملدرآمد کیسے کرے گی ؟ باعث حیرت امر یہ ہے کہ وزیر خزانہ نے اضافے کے اعلان میں یہ نہیں کہا کہ اس کی ادائیگی کے لئے وفاقی حکومت جامعات کو اعلیٰ تعلیمی کمیشن یا صوبائی حکومت کے توسط سے اتنا بجٹ مختص کر رہی ہے اور نہ یہ وضاحت کی گئی ہے کہ یہ اضافہ یونیورسٹیوں کے لئے نہیں ہے لہٰذا اب جو ہوگا تو یقیناً یہ ہو گا کہ ملازمین اگرچہ15 فیصد اضافے کے حصول کیلئے تگ ودو کیساتھ معمول کی تنخواہوں کے لئے بھی احتجاج کر رہے ہیں تو لازماً جلد یا بہ دیر35 اور30 فیصد نئے اضافے کے حصول کے لئے بھی سڑکوں پر ہوں گے اور ممکن ہے کہ ان کی آواز اور احتجاج میں عمر رسیدہ بیمار اور لاچار پنشنرز بھی شامل ہوں اور جب ایسا ہو گا جس کے واقع ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں ہوتا چاہئے تو یقیناً اس انتشار افراتفری اور احتجاج کے سبب ہونے والے تعلیمی ضیاع کی ذمہ داری حکومت پر ہی عائد ہو گی ۔
اشتہار
مقبول خبریں
یہ کفایت شعاری کیا ہوتی ہے؟
پریشان داﺅدزے
پریشان داﺅدزے
جامعہ کا مخدوش حال‘غیر واضح مستقبل
پریشان داﺅدزے
پریشان داﺅدزے
ایک اعشاریہ پانچ فی صد بجٹ کی تعلیم
پریشان داﺅدزے
پریشان داﺅدزے
”ئہنوز دلی دور است“
پریشان داﺅدزے
پریشان داﺅدزے