بچے انتظار کر رہے ہیں 

اب کچھ دن پہلے ریحان نے وٹس ایپ پر اس دن کا ایک گروپ فوٹو بھجوایا ۔ بتلایا کہ ان میں سے پندرہ سال کا اختر گل انتقال کر گیاہے۔ کیونکہ اس کو وقت پر خون نہیں مل سکا ۔یہ دیکھ کرمیری آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے کیونکہ اس بچے کے ساتھ میں نے کافی گپ شپ لگائی تھی ۔خدارا خون کے ہسپتالوں میں بچے آپ کا انتظار کر رہے ہیں ۔ ان کو خون دینے والا کوئی نہیں۔ آگے آئیں او ران کی جان بچالیں آپ کی ایک خون کی تھیلی تین بچوں کو چڑھائی جاتی ہے ۔خون کے اس ایک بیگ سے تین بچوں کی زندگی بچائی جا سکتی ہے۔ جیسے گاڑی چلتی تو ہے مگر پٹرول خود نہیں بناتی ۔اس میں باہر سے تیل ڈالا جاتا ہے ۔یہ تھیلی سیمیا کی بیماری بھی اسی طرح ہے ۔یہ خون کی بیماری ہے۔اس عارضہ میں بچے کے جسم میں اپنا خون بنانے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے۔پھر اس کو والد یا والدہ ہر چھ ماہ بعد خون چڑھاتے ہیں۔ یہ دورانیہ آہستہ آہستہ کم ہوتا ہے اوراسی بچے کو تین ماہ کے بعد خون کی تھیلی چڑھاتے ہیں ۔ یہ تین مہینہ کا وقت مزید کم ہو کر ایک ماہ تک آجاتا ہے۔ماں باپ رُل جاتے ہیں۔عزیزوں رشتہ داروں دوست یاروں سے خون مانگ مانگ کر شرمندہ ہوتے ہیں ۔خون ہے پانی نہیں کون دیتا ہے۔ بھلے چنگے ٹھیک ٹھیک اور صحت رکھنے والے بھی خون کا عطیہ دینے سے بھاگ جاتے ہیں ۔مجھے احساسِ فخر کے ساتھ نہیں بلکہ مجبوری کے عالم میں کہنا ہے کہ میں نے 143بار خون کا عطیہ دیا ہے ۔اس کے باوجود خدا کے فضل و کرم سے میں ٹھیک ٹھاک ہوں گوگل اور فیس بک پر یا یوٹیوب پر مجھے سرچ کر سکتے ہیں ۔ او رتو اور میری اہلیہ نے پچاس سے زیادہ مرتبہ خون کا عطیہ دیا ہے۔جو شاید عورتوں میں کسی اور نے دیا نہ ہو۔میرے بیٹے نے پچاس سے زیادہ مرتبہ خون دیا ہے۔اس کے علاوہ ہمارے دوستوں یاروںمیں کسی نے 80مرتبہ اور کسی نے 60مرتبہ خون عطیہ کیا ہے ۔پھر بیگم کے بھائی ہیں جن کا او نیگٹیو گروپ ہے انھوں نے بھی 40 مرتبہ خون دیا ہے۔اس سے گھبرائیں نہیں کہ خون دینے سے جسم و جان پر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔2018ءمیں معروف انگریزی اخبار میں تھا کہ ہمارے ہاں ایک فی صدسے بھی کم لوگ خون عطیہ کر ر ہے ہیں۔حالانکہ ہماری ضرورت تین فی صد ہے ۔جبکہ ہماری آبادی کے تناسب سے تینتیس فی صد لوگ خون کا عطیہ دینے کی اہلیت رکھتے ہیں۔یہ بیماری بچے کوکسی بھی عمر میں ہوجاتی ہے۔پھر پیدائش کے کچھ سالوں کے بعد بچے کو یہ بیماری نمودار ہو جائے۔اس ذلت و خواری سے بچنے کی خاطر یہ احتیاط کریں کہ جن کی آپس میںشادی ہونے والی ہو وہ اپنے خون کا ٹیسٹ کروائیں۔ اس ٹیسٹ کا نام ایچ بی الیکٹرو پروسس ہے ۔یہ کم از کم تین ہزار میں ہو جاتا ہے ۔اگر اچھی لیبارٹری ہو وہاں خرچہ زیادہ آتا ہے۔عام طور سے اگر ماں او رباپ دونوں کے خون میں اس بیماری کے جراثیم ہوں تو یہ بات یقینی ہوتی ہے کہ ان کے ہاں جنم لینے والے کسی بچے کو تھیلی سیمیا کی بیماری ہو ۔لیکن اگر والدین میں سے کسی ایک کو ہو اور دوسرے کو نہ ہو تو اس بیماری کا چانس نہیں ہوتا ۔بعض والدین میں سے کسی ایک کے خون میں یہ جراثیم ہوتے ہیں ۔ مگر خود ان کو خون چڑھانے کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ اس لئے اس بیماری کو اپنے ہونے والے بچوں سے دور رکھنے کے لئے شادی سے قبل احتیاط کے طور پر ٹیسٹ کروا لیں۔ کیونکہ میں 1987ءسے خون کا عطیہ دے رہاہوں ۔ ان عطیات میں زیادہ تر کیس اسی قسم کے ہوتے ہیں کہ ماں باپ سرکاری اور پرائیویٹ خون کے ہسپتالوں کے چکر لگانے میں جوتیاں چٹخاتے پھرتے ہیں ۔ ان کی زندگی اجیرن ہو جاتی ہے ۔اس ذہنی کوفت سے دور رہنے کو یہ ٹیسٹ کروانا بہت ضروری ہے۔عام لوگ اس باریک نکتے سے واقف نہیں ہیں۔ ان کو اگر ہدایت دو تو وہ اس جواب میں سو باتیں کرتے ہیں۔اس قسم کے بچے ذرا قریب سے پہچان لئے جاتے ہیں۔ان کا رنگ سرخی مائل نہیں سیاہی مائل ہوتا ہے ۔بلڈ چین والوں کا پروگرام تھا ۔ یہ تنظیم پورے پاکستان میں پھیلی ہے ۔جن میں زن و مرد تعلیم یافتہ لوگ بھی شامل ہیں ۔جوان لڑکے لڑکیاںانسانیت کی خدمت کے لئے کوشاں ہیں۔ انھوں نے نشتر ہال پشاور میں مجھے او رمیری اہلیہ کو بھی بلایا تھا ۔شاندار قسم کی تقریب تھی ۔ہمیں وہاں ایوارڈ دیئے گئے۔ تقاریر اور خاکے پیش ہوئے۔ایک پُر بہار قسم کا پروگرام تھا۔ چائے کاسیشن چلاتو ہم میاں بیوی کے ساتھ تھیلی سیمیا کے بچے بھی آن کھڑے ہوئے ۔ان کے ساتھ بات چیت ہوئی۔ وہاں فوٹو نکالے گئے۔کالم کے شروع میں اسی مرحوم بچے کی بات ہوئی جو اس تصویرمیں ہمارے ساتھ کھڑا نظر آتا ہے۔