پشاور کی تلاش 

شہر وہی ہے مگر اس کے رہنے والے یار دوست رشتہ دار واقف کار اس شہر کے سمندر میں گم ہو چکے ہیں۔ جیسے فرش کی زمین پر موتیوں کی مالا کا دھاگا ٹوٹے اور اس کے منکے تتر بتر ہو جائیں ۔کوئی گیند کی طرح ٹپے کھاتا ہوا کہاں جا گرے اور کوئی چھن چھن کی مہین سی آواز نکالے کسی کونے کھدرے میں اپنے ہی زور پرجا ٹھہرے۔کتنے تو شہر کے میں ہوکر دنیا ہی میں نہیں ہیں ۔ وہ موتی اسی شہرکی مٹی میں رُل گئے ہیں ۔مگر ” مجذوب شاعر کے بقول ” داغِ دل چمکے گا بن کے آفتاب ۔لاکھ ا س پر خاک ڈالی جائے گی“ ۔ وہ زیرِ زمین آفتاب اور ماہتاب دل کے آسمان پر دوسرے گم شدہ اور بازیاب و نمایاں ستاروں کے سنگ جگمگا رہے ہیں۔وہ اگر پاس نہیں تو کیا ” آنکھ سے دور سہی دل سے کہاں جائے گا ۔جانے والے تو ہمیں یاد بہت یاد آئے گا“۔مگر اب جو بفضلِ خدا زندہ و حیات ہیں وہ بھی تو کہاں سے کہاں ہجرت کر کے اسی شہر کی نئی آبادیوں میں روپوش ہو چکے ہیں ۔دکانیں بیچ باچ کر گھروں کو اچھی قیمتوں کے عوض چھوڑ چھاڑ کے شہر کے مضافات میں نئی آبادی میں اپنے دوسرے ہم کارہم نفس ہم نشینوں کے ہمراہ جا کر چھپ گئے ہیں۔ اب اگر میں پشاو رکے گلی کوچوں میں جاکر آواز دوں تو یہ کوشش نامکمل کہلائے گی ۔کیونکہ وہ ان گھروں میں کہاں وہ تو شہر کے دروازوں کے باہر نئے گھروں میں منتقل ہو چکے ہیں ۔جب شہر کے گھروں کے بیڈ روم گلی کے باہر کی دکانوں اور کاروباری مراکز کے گودام بن جاتے ہیں تو شہر کی معاشی ترقی او ررسم و راج کی تباہی او رریت رواج کی تباہ حالی کا اندازہ لگانا ہر کس و ناکس کا کام ہوجاتا ہے۔”میں تیرے اجنبی شہر میں ڈھونڈتا پھر رہا ہوں تجھے مجھ کو آواز دے مجھ کو آواز دے“۔ مگر میں تو شہر میں ہوں اور اس کو آواز دے رہا ہوں ۔لیکن وہ جو نہیں وہ شہر کے باہر قبرستانوں میں جا مقیم ہوئے اور باقی کے پگڑی والے لوگ شہر کے اندر ہی گھر کی اپنی بیٹھک کو بیچ کر پیچھے کہیں دھکیل دیئے گئے ہیں۔کیونکہ یہ ان کی مجبوری ہے اور وہ کاروباری طبقہ کی مجبوری ہے کہ وہ بازار میں پیوستہ مکانات خرید رہے ہیں۔کیونکہ اندرون پشاور اربوں روپوں کی مارکیٹوں کے بزنس کا مرکز بن چکا ہے۔اس کے گلی کوچوں اور بازاروں میںگھوم جائیں ۔کسی اپنے کی شکل دیکھنے کو آنکھیں ترس جائیں گی ۔مگر کوئی نظر نہیں آئے گا ۔یا تو فی زمانہ ان کی شکلیں بدل گئی ہیں کیونکہ انھوں نے ایک چہرے پر کئی چہرے سجا لئے ہیں۔پھر عہد کے بدلنے کے ساتھ وقت کے مصور نے ان کے چہروں کو تبدیل کر کے ان کے سیاہ مُو سروں پر سفید برش پھیر دیئے ہیںکہ ان کی صورت ہی پہچانی نہیں جاتی۔پھر ان صورتوں کو ڈھونڈنے سے کیا حاصل ۔ عہدِ ماضی کے وہ درو دیوار بھی تو نہیں رہے ۔جن کے گھر تھے انھوں نے وقت کی ضرورت کے تحت اپنے گھروں کی نچلی منزلوں کو دکانوں میں او رمارکیٹوں میں تبدیل کر کے جو کام روزگارباقی تھا وہ بھی چھوڑ چھاڑ کے اپنوں گھروں کے صحنوں میں پڑے بڑے تخت پر گا¶ تکیہ لگا کر آرام کرنے میں مصروف ہو گئے ہیں۔ قہوہ پہ قہوہ چل رہا ہے پھر اس کے بعد کہیں کالی چائے کا نمبر آتا ہے او ریہ سُرکیاں بھر بھر کے پی رہے ہیں۔مصحفی کا مصرع یاد آتا ہے ” مصحفی گوشہ¿ عزلت کو سمجھ تخت ِ شہی “ ۔ وہ اس فراغت کے کونے کو جہاں وہ تخت پر براجمان ہیں راج سنگھاسن سمجھ کر زیبِ نشست ہیں ۔وہ بادشاہ بن چکے ہیں ۔انھیں اب لوگ بادشاہو کیا ہورہا ہے کہہ کر پکارتے ہیں وہ جواب میں فرما سکتے ہیںکہ تم کو معلوم نہیں نظر نہیں آتا کہ آرام ہو رہا ہے۔وہ گھر بار پوپھی خالہ ماموں اور چچا کی رہائش گاہیں صدر کے علاقے میں تو ہوٹل میں تبدیل ہو چکی ہیں اور شہر میں مارکیٹ اور اکا دکا دکانوں کا روپ سروپ دھار چکی ہیں۔ بھلاپیپل منڈی میں اگر خالہ کا گھر ڈھونڈنے جا¶ تو خالہ جی کا گھر یاد آنے لگے وہ تو اتنی گھنی بھیڑ میں کھو چکا ہے کہ اس گھر کی تلاش میں خود اپنے آپ کے گم ہوجانے کا اندیشہ ہے ۔درو دیوار تو ہمارے لئے کہ ہم یہاںکے باسی ہیں اور روز کے یہاں سے گزرنے والے ہیں اجنبی ہیں ۔پھر جو باہر ملک میں عرصہ چالیس سال سے مقیم ہیں وہ آئیں تو ان کو بھلا پشاور کہاں سے ملے گا جو اسی بھیڑ بھاڑ اور رش میں دکانوں کے عین بیچ او رمارکیٹوں کے پہلو میں گم گشتہ ملے گا۔ سو پرانے پشاور کی تلاش تو مشکل ہے ۔ہاں خود کے گم ہونے کا اندیشہ زیادہ ہے۔ہاں اجنبی شہر سمجھ کر گھومیں پھریں جیسے آپ دوسرے اجنبی شہروں میں گھومتے گھامتے ہیں۔مگر اس شہر کو اپنا سمجھ کر اس میں چکر لگایا اور عزیزوں کی تمنا کی خاطر ان کو ڈھونڈا تو خود کے گم ہوجانے کا یقینی امکان ہے ۔