اپنا گریباں چاک

دوسرے کے گریبان میں جھانکنے سے کہیں اچھا ہے کہ ہم خود اپنے گریبان کو ٹٹولیں ۔مراد یہ ہے کہ سچ بولنے سے کہیں مشکل کام سچ سننا ہے ۔کوئی انسان اپنی ذات میں مکمل نہیں ہوتا۔بعض کہتے ہیں کہ یار میںنے تو سچ بولا ہے میں تو سچ بولتا ہوںکسی کو برا لگے تو لگتا رہے میں تو اس سلسلے میں کچھ کرنے سے قاصر ہوں۔ مگر اس سے کوئی پوچھے کہ جب آپ کے بارے میں دوسرے سچ بولتے ہیں اس پر آپ چین بہ جبیں کیوں ہوتے ہیں۔اپنے بارے میں سچ سن کر سیخ پا ہونے کی ضرورت نہیں۔ہر آدمی خوبیوں اور خامیوں کامجموعہ ہوتا ہے۔اگر ایک انسان میں خوبیاں ہیں تو ضروری نہیں کہ اس کو یہ معلوم ہو کہ مجھ میں کیا کیا اچھائیاں پائی جاتی ہیں ۔پھر جس انسان میں کوئی خرابی ہو اس کو بھی تو معلوم نہیں ہوتا کہ مجھ میں کیا مسائل ہیں جن سے دوسرے الرجی محسوس کر تے ہیں۔سو اس لئے دوسروں کی طرف انگلی اٹھاتے وقت یہ بھی سوچیں کہ چار انگلیاں خود ہماری طرف مڑ کر اشارہ کرتی ہیں کہ اس میں خود ایک نہیں چار برائیاں موجود ہیں۔ دراصل ہر بندے کو اپنی ذات مکمل نظر آتی ہے ۔اس کو معلوم ہی نہیں ہو پاتا کہ مجھ میں کیا خرابی ہے ۔اس لئے وہ اپنی ذات کو اپنے لئے عملی نمونہ سمجھتا ہے ۔پھر وہ کسی سے متاثر بھی تو نہیں ہوتا سمجھتا ہے کہ جیسا میں ہوں ویسا کوئی اور نہیں ہے ۔یہ دنیا کی سب سے بڑی غلط فہمی ہے۔دنیا کا سب سے بڑا علم یہ ہے کہ بندہ کہے میں سب سے کمتر ہوں مجھ میں کوئی علم نہیں ہے ۔میں تو یہ جانتا ہوں کہ میں کچھ نہیں جانتا ۔علم کی ابتدا لا علمی سے شروع ہوتی ہے اور اس کی انتہا بھی لا علمی ہے ۔مگر بعض حضرات اپنے آپ کو فہم وفراست کا نمونہ قرار دیتے ہیں اور دل ہی دل میں خوش ہوتے ہیں۔ مگر سب سے اچھا درس یہی ہے کہ بندہ اپنے آپ کو عاجز سمجھے ۔ ہر چند کہ وہ دولت و دنیا کے لحاظ سے بھی اگر کسی مرتبہ و مقام پر فائز ہو اور علم کے لحاظ سے بھی واقعی کچھ ہو مگر اس کامنصب یہی ہونا چاہئے میں تو کچھ نہیں جانتا سقراط بڑا عالم تھا اس کو اس کے شاگرد یہ بات کرتے تھے ۔جس کے جواب میں اس کا یہی کہناہوتا کہ میں جانتاہوں یہ بات کہ میں کچھ نہیں جانتا۔یہی تواصلِ انسانیت ہے اور واقعی انسان یہی کچھ ہے ۔سو اپنی خرابیاں گننا زیادہ اچھا ہے کہ دوسروں کی ٹوہ میںلگے رہیں کہ وہ کیا کرتا ہے کس وقت آتا ہے اور کس وقت گھر سے نکل کر جاتاہے اورکہاںجاتا ہے ۔بس بندہ اپنے کام سے کام رکھے بہتر ہے ۔اسی میں بھلائی ہے پھر یہی توبھلائی ہے ۔یہاںتو انسان اپنے آپ کو پورا نہیں کرسکتا اور لگا ہو دوسروں کی مخبری میں کہ وہ کیا کرتا ہے کیا نہیں کرتا۔اس لئے سچ کہنے کے زمانے گئے اب تو سچ سننے کا زمانہ آ گیا ہے ‘مگر ایسے بھی ہیں کہ جو واقعی اپنے ہی گریبان میں جھانکنے کے عادی ہیں وہ زیادہ اچھے ہیں ان لوگوں کی بہ نسبت جو دوسروں کے اخلاق اور کردار میں برائیاں تلاش کرتے ہیں۔ان کو ایک طرح کا غرور ہوتا ہے کہ میں درست ہوں اور میں ہی ٹھیک ہوں ۔ دوسرا ان کے سامنے سونے کا بھی بن کر آ جائے تو اس میں سے بھی اِس کو خرابیاں نظر آئیں گی ۔پھر اس کومحدب عدسہ لگانے کی ضرورت نہیں اس کو یہ چھوٹی موٹی برائیاں بہت بڑی ہو کر نظر آئیں گی جن کو وہ معاشرے میں اور یہاں وہاں بڑے دھڑلے اور بے خوفی سے بیان کر کے اپنی جھوٹی تعریفیں سنے گا تو اس کے دل کو تسلی ہوگی ۔اصل میں یہ لو گ بہت کم ہیں جو اپنے آپ میں خامیاں تلاش کرنے والے ہیں ۔ زیادہ تر اپنے آپ کو معاشرے کا اہم ترین فرد گردانتے ہیں اور اس پر اتراتے پھرتے ہیں ۔مگر جب کوئی ان کو آئینہ دکھا دیتا ہے تو وہ اس آئینہ کو پتھر مارنا شروع کر دیتے۔ چاہئے یہ کہ اس آئینے میں ان کو جو اپنا سراپا اور پیکر نظر آیا اس تصویر پر جو داغ ہیں ان کو دور کرے مگر وہ یہ کام نہیں کرتا اور بجائے اس کے کہ اپنے چہرے کی دھول او رچھائیا ںدور کرے وہ اس آئینے کو توڑنا چاہتا ہے جس میں اس کو اپنا چہرہ مہرہ نظر آیا ہوتا ہے ۔اپنے چہرے کی برائیاں کس کو نظر آتی ہیں یہ تو آئینہ ہے کہ دوسرے کو سچ او رجھوٹ دکھلا دیتا ہے اب دیکھنے والے کا کام ہے کہ وہ اس جھوٹ کو سمجھے او رجانے اور اس کی روشنی میں اپنے اخلاق اور کردار کو درست کرے ۔