عزت و توقیر

میں تو کہتا ہوں وہ لوگ اچھے ہیں بلکہ بہت اچھے جن کے ہاتھوں میں سادہ موبائل تھاماہوتا ہے ۔بس کال کرتے ہیں اور کال سنتے ہیں۔تین انگلیوں کے ناپ کا موبائل جس میں صرف سننا اور بولنا ہے ۔اس کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ یہ جو ٹچ موبائل ہے اس نے تو اپنی روشنی سے لوگوں کی دنیا اندھیر کر دی ہے ۔کسی کو اس کی سکرین کی روشنی میں دیکھ کر اور کہیں کچھ دیکھنے کی نوبت ہی نہیں آتی او راگر دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں تو انھیں کچھ نظر ہی نہیں آتا ۔آنکھیں چندھیا جاتی ہیں یہ الگ اور آنکھیں خراب ہوتی ہیں وہ جدا مسئلہ ۔کھانا کھا رہے ہوں یا چائے پی رہے ہوں یا چولھے کے قریب کام کر رہے ہوں اس نامراد سائنسی چیزِ کا ہاتھ میں ہونا بہت ضروری ہوتا ہے۔کیونکہ آ ج کے اس جدید دور میںاس کے بغیر نہ تو خالی ہاتھ اچھے لگتے ہیں اور اورپھر جتنا مہنگا موبائل ہوگا اتنا ہی عزت میں اضافہ ہو گا۔ بلکہ توقیر میں کیا اضافہ ہوگا باہر کی کمپنیوں نے زبردستی عزت و توقیر میں اضافہ کروا دیا ہے ۔کیونکہ معمولی سا رنگین موبائل بھی ہو تو استعمال شدہ تیس ہزار سے نیچے کا لینا اپنے آپ کو آزار دینا ہے ۔کیونکہ پھر اس استعمال شدہ موبائل کی خرابیاں نظر آنا شروع ہو جاتی ہیں ۔آدمی کڑھنے جلنے لگتا ہے کہ میں نے کیوں خریدا۔ وہاں دکاندار کچھ گزر جائیں تو واپس لینے سے انکار کر دیتا ہے۔کیونکہ جب اس نے دیا تو چیک کروا کے دیا۔خریدار بھی ٹھوک بجا کر لیتا ہے اور پوچھ پاچھ کر خریدتا ہے ۔لیکن دونوں ایک دوسرے کو جُل دے رہے ہوتے ہیں۔جن میں خریدار کو بہت خراب قسم کا دھوکا لگتا ہے۔ویسے آج کل نئے موبائل آبھی نہیں رہے ان کی آمد کی رفتار بہت کم ہے۔کیونکہ نئے موبائل کے خریدار بہت کم ہیں ۔ زیادہ تر لوگوں کو کہ روزمرہ کی روٹی ہی دستیاب نہ ہو وہ روٹی کمائیں گے یا جا کر کم از کم پچاس ہزار کا موبائل خریدیں گے ۔سو اس صورتِ حال میں جو سب سے اچھی بات ہے وہ یہ ہے کہ موبائل اگر خریدا جائے تو استعمال شدہ ہی خریدیں ۔جب سونا آپ ایک دکان سے لے کر دوسرے دن کسی اور دکان پر بیچنے جائیں تو اس میں ہزاروں کی کمی آ جاتی ہے تو موبائل کیا چیز ہے۔ویسے سونا تو کم لوگ ہی خرید رہے ہیں۔ بہت کم لوگوں کا کام کا ہے کہ آج کل سونا خریدیں ۔شادی بیاہ کی بات ہے تو چلے جاتے ہیں یعنی جن کے ہاں شادی کی رسومات طے ہوتی ہیں خریدتے ہیں ۔ورنہ تو شوقیہ سونا لینے والے تو آٹے میں نمک کے برابر ہیں بلکہ بغیر نمکین آٹے والے ہیں۔کیونکہ وہاں تو آٹا بھی روز بروز مہنگا ہو رہاہے اور روٹیاں بیچنے والے اگر روٹی کو مہنگانہیں کر سکتے تو روٹی کو چھوٹا کردینا تو ان کے اختیار میں ہے ۔موبائل بھی آبادی میں اور ان گنت تعداد میں ہیں ۔وہ شعر ہے کہ ” تن پہ سجتے ہیں مگر روح کو ڈس جاتے ہیں ۔خوشنما سانپ ہیں ہی اطلس و کمخواب کے رنگ “۔ موبائل نے کس گھر میں کس بچے بچی کو ڈس لیا کسی کو معلوم بھی نہیں پاتا۔ ” یہ سبھی ویرانیاں ان کے جدا ہونے سے تھیں۔ آنکھ دھندلائی تھی لیکن شہر دھندلایا نہ تھا“۔مگر یہ معاشرتی خرابیاں موبائل کے ہونے سے ہیں ۔پھر دوسری طرف یہ شرارتی چرخہ آج کے انسان کے لئے ضروری بھی تو ہے ۔بندہ کہاں جائے ہر زن و مرد کے ہاتھ میں یہ موبائل تھاما ہوا ہے ۔پھر یہ فیشن بھی تو بن چکا ہے ۔شادی بیاہوں میں اگر ہاتھ خالی ہوں تو خود اپنا آپ اچھا نہیں لگتا ۔جب اپنے کو اپنا آپ اچھا نہ لگتا ہو تو دوسرے کو کیونکر اچھا لگے گا۔