کوئی بھی یہ نہیں چاہے گا کہ قدیم درسگاہ کے ملازمین اگست کی تنخواہ سے محروم رہےں جبکہ عمر رسیدہ اور اکثر بیمار و لاچار ریٹائرڈ ملازمین کی تو بات ہی الگ ہے ۔ایسے میں انجینئرنگ یونیورسٹی کے سابق ڈین پروفیسر نور محمد خان جو کہ یونیورسٹی کے پر وائس چانسلر بھی رہے ہیں کی سربراہی میں پنشنرز ایسوسی ایشن کاقیام بھی عمل میں لایا گیا ہے اس سے قبل کیمپس کی سطح پر ایسا اتحاد اسلامیہ کالج کے سابق ڈینز پروفیسر حیدر شاہ جدون اور پروفیسر سید ظاہر شاہ کی قیادت میں سامنے آیا تھا جس کی سرگرمیاں عرصہ ہوا ماند پڑی ہیں۔ انجینئرنگ پنشنرز ایسوسی یشن میں ایک نئی بات یہ بھی سامنے آئی ہے کہ سبکدوشوں کے اتحاد کو حاضر سروس ملازمین کی دونوں یونینز ٹیچرز ایسوسی ایشن اور آل نان ٹیچنگ ایمپلائز ایسوسی ایشن کا تعاون بھی حاصل ہو گا جبکہ اساتذہ کے صدر ڈاکٹر فیروز شاہ اور ایمپلائز ایسوسی ایشن کے تقریباً تا ریٹائرمنٹ صدر ارباب امیر خسرو خان کا ساتھ میرے خیال میں بے نتیجہ ثابت نہیں ہو گا‘ جہاں تک جامعات کی مالی ابتری اور حاضر سروس اور سبکدوش ملازمین میں پائے جانے والے اضطراب کا تعلق ہے تو میرے اندازے کے مطابق انجینئرنگ والے بھی قدیم درسگاہ والوں سے کچھ زیادہ پیچھے نہیں اور یہی حالت اسلامیہ کالج اور جامعہ زرعیہ کی بھی فرض کر لیں ‘ پشاور یونیورسٹی ملازمین اتحاد کا سال2022 کا طویل احتجاج جس افہام و تفہیم اور یقین دہانیوں پر ختم ہوا تھا اس کے بعد ازاں محض آٹے میں نمک کے برابر عمل ہوا ہے جبکہ سال 2023 کے 43 روزہ تالہ بندی نے تو یونیورسٹی کی 73 سالہ تاریخ میں ایک نیا ریکارڈ قائم کر لیا مگر شو مئی قسمت کہ تاحال کچھ بھی ہاتھ نہیں آیا؟ اس طرح جب 7 مارچ سے ہونے والے سال2023 کی ہڑتال اور تالہ بندی نے طوالت اختیار کر لی اور مختلف سیاسی جماعتوں کے مقامی رہنماﺅں نے یونیورسٹی کے ایڈمن بلاک میں لگائے گئے احتجاج کیمپ کا رخ کرتے ہوئے اپنی جوشیلی تقاریر میں احتجاجی ملازمین کو داد و شاباش دینے کیساتھ ساتھ حکومت کو ہدف تنقید بلکہ نکتہ چینی بنا دیا تو سرکاری اداروں نے بھی کروٹ بدلی اورحکام نے رابطے شروع کرکے یونیورسٹی انتظامیہ اور ملازمین اتحاد یعنی جائنٹ ایکشن کمیٹی یا جیک کے نمائندوں کو مذاکرات کی میز پر بیٹھا کر تمام مسائل اور مطالبات کے حل کی یقین دہانی کرا دی تو یونیورسٹی کا طویل احتجاج رمضان سے محض تین دن قبل ملازمین نمائندوں کے اس اعلان پر اختتام کو پہنچا کہ حکام کی موجودگی میں فریقین کے مابین باقاعدہ معاہدہ طے ہوا اور حکومت ضامن بن گئی مگر پانچ مہینے گزرنے کے باوجود کوئی ضامن سامنے آیا اور نہ ہی معاہدے پر عمل درآمد لہٰذا جیک والے ایک بار پھر متحرک ہو کر احتجاج کے لئے پرتول رہے ہیں انجینئرنگ یونیورسٹی پنشنرز ایسوسی ایشن کے پہلے اجلاس کا اعلامیہ دیکھ کر مجھے جائنٹ ایکشن کمیٹی پشاور یونیورسٹی کا ڈیمانڈ نوٹس بہت مختصر آنے لگا کیونکہ ان کی 43 روزہ تالہ بندی اور بپھرے احتجاج کے ڈیمانڈ نوٹس میں35 فیصد اور 30 فیصد تنخواہ اضافے اور17.50 فیصد پنشن بڑھانے کی شکل میں جامعات پر حکومت کی مہربانی سے مالی بوجھ مزید بڑھنے کا المیہ شامل نہیں تھا مگراس بار جیک والوں کا ڈیمانڈ نوٹس بھی قدرے طویل ہو گیا ہو گا‘ دوسری طرف جامعات کی انتظامیہ ہے جس کا سننے والا کوئی نہیں البتہ جامعہ پشاور کی انتظامیہ کی یہ حکمت عملی معقول لگتی ہے کہ اگست کے اوائل ہی سے حکومتی اداروں کو تحریری طور پر آگاہ کر دیا ہے کہ اگست کی تنخواہ ‘الاﺅنسز اور پنشن کی ادائیگی کے لئے یونیورسٹی کے پاس کوئی مالی وسائل نہیں ہے اب دیکھیں گے کہ حکومت کی طرف سے کیا جواب آتا ہے ؟ اور اگر خدانخواستہ یونیورسٹی ملازمین اگست کی تنخواہ سے محروم رہے یا جولائی کی طرح اس بار بھی کوئی ہفتہ دس دن تاخیر واقع ہو جائے تو ملازمین اتحاد یعنی جیک کی حکمت عملی کیا ہو گی؟ بہر کیف گزشتہ کئی سال سے تعلیمی زبوں حالی کا تسلسل ایک المیہ سے کم نہیں۔
اشتہار
مقبول خبریں
یہ کفایت شعاری کیا ہوتی ہے؟
پریشان داﺅدزے
پریشان داﺅدزے
جامعہ کا مخدوش حال‘غیر واضح مستقبل
پریشان داﺅدزے
پریشان داﺅدزے
ایک اعشاریہ پانچ فی صد بجٹ کی تعلیم
پریشان داﺅدزے
پریشان داﺅدزے
”ئہنوز دلی دور است“
پریشان داﺅدزے
پریشان داﺅدزے