بس ایک جملہ 

بہت ذہن پر زور دیا مگر یاد نہیں آ رہی تھی۔ وہ محفل وہ واقعات یاد کئے کہ شاید وہ بھولی ہوئی بات ذہن کے دریچوں سے تازہ ہوا کی مانند جھول کر دستک دے ‘شاید کسی راستے سے دروازے کی درز سے کہیں اندر آئے مگر نہ ہوا ۔اب تلک سوچ رہا ہوں کہ وہ لائن کیا تھی۔ مگر یاد نہ آئی تو میں نے کہا چلو الگ کالم لکھنے کےلئے اپنے اوزار تیار کرتا ہوں شاید اس دوران میں وہ سطر ذہن کے کسی گوشے میں سے اُبھرے اور دماغ پر چھتری کی طرح چھا جائے‘ کیونکہ بارش تو ویسے بھی ہمارے ہاں نہیں ہو رہی تو دھوپ کو سہنے ہی کےلئے وہ لائن کھلی چھتری بن کر سر پر چھا¶ں کر دے ۔مگر نہ ہوا لیکن شاید کالم جب اختتام پذیر ہو تو وہ ایک جملہ اگر یاد آیاتو چلو اس تحریر میں نہ سہی کسی دوسری یادداشت میں رقم کر پا¶ں ۔ صاحبو دراصل مسئلہ کچھ اور ہے اور قابلِ غور نہ سہی مگر قابلِ غور ہے ‘کالم نویسی کے لئے بس ایک جملہ درکار ہو تا ہے ‘وہ کئی دنوں سے ذہن کے اوپر فلائی کرتا رہتا ہے ‘جیسے ہوائی جہاز کو اگر کنٹرول ٹاور سے اجازت نہ ملے کہ لینڈ کرو تو وہ تب تک کہ ایئر پورٹ پر ٹریفک پرسکون ہو جائے ہوا میں گول گول چکر کاٹتا ہے ۔جیسے اس گرمی میں ایک نہیں درجنوں مچھر سر کے گرد بھنبھناتے ہیں غوں غوں کرتے اپنے ہونے کی اطلاع دیتے ہیں۔وہ جملہ بھی اسی طرح دو تین دنوں تک اپنے وجود کی رجسٹریشن کرواتا ہے ۔اگراس میں زور ہوا تو اپنے آپ کو زبردستی لکھوا لیتا ہے اپنے کو کالم کی شکل میں ڈھال لیتا ہے۔مگر مجھ سے سستی ایسی ہوئی کہ کچھ موضوعات بہت ارجنٹ تھے سوچ میں تھا کہ وہ پہلے لکھنے ہیں ۔پھریہ جملہ تو مجھے یاد ہے ۔اس پربعد میں لکھ لوں گا۔ مگر اب جو چند دنوں میں وہ فوری نوعیت کے عنوانات نپٹ گئے تو سوچاکہ چلو جی کمپیوٹر کھولو اور اس جملہ کو بھی چیونگم کی طرح کھینچو اس سے غبارے بنا¶کھیلو اور پھوڑو اور پھر بنا¶ چیونگم چھوٹی ہی رہے گی مگر یہ تو اپنا ہنر کہہ لیں یہ منہ کی ہوا کہہ لیں یا اپنی سی زبان کا چسکاکہہ لیںکہ اسی چیونگم کو دوبارہ دوبارہ اندر ہی اندر ننھی کونپل کی طرح پتاسا بنا کرپھر اگلے مرحلے میںپھیلا کر ا پنی غبارہ ساز فیکٹری کا کام لیں‘کالم کاری میں ملوث ہو جائیں گے ‘مگر آج تواتنا موقع بھی نہ ملاکہ کالم رائٹنگ نہ سہی سٹامپ پیپر والی زباندانی کی کالم نویسی ہوتی اور ہم اس میں ملوث ہونے کااعزازحاصل کر لیتے ۔ مگر اگر یوں ہے لیکن کیوں ہے تو چلو یونہی سہی ‘بڑھاپے میں یاداشت کے خراب ہونے کا تو ہر وقت احتمال رہتا ہے ‘پھر ہماری یاداشت تو ادھیڑ عمر کے اپنے در دروازوں پر دستک دینے سے قبل ہی ہمارا ساتھ چھوڑ گئی ۔کبھی عینک بھول کر آجاتے ہیںاور کبھی تو ہیلمٹ ہی جو اتنا ضروری ہے کہ بائیک پر بیٹھو تو سب سے پہلے یاد آنے والی چیزِ ہے وہ بھی یاد نہ آئے تو آپ ہی بتلائیں کہ ہم کیاکریں‘ کون سا کشتہ کھائیں کہ یاداشت بہتر ہو جائے ۔ ویسے آپ مشورہ نہ ہی دیں تو بہتر ہے‘کیونکہ وہ مشورہ ہی یاد نہ رہا تو کیا کریں گے ‘اپنا سر پیٹتے رہیں گے ‘اب عینک بارے میں ایک عدد تحریر اخبار میں بطور اشتہارِ گم شدگی لکھی تھی‘یہ کہ جانے کہاں عینک بھول آیاہوں کیونکہ جہاں جاتا ہوں عینک اور ہیلمٹ بھولنا ہماری یاداشت بن چکا ہے ‘ہیلمٹ کے بارے میں تو خیر فون آہی گیا تھا کہ کیوں جی اپناہیلمٹ نہیں لے جانا‘ اوہو مجھے یاد آیا کہ وزیر باغ کے مین گیٹ کےساتھ کی گلی میں اپنے یارِ دلبر بھولے کے گھر کھانے کے بعد ایسا نشہ طاری ہوا کہ جہاں سب کچھ بھول گیا اور ہیلمٹ نے تو بھولنا ہی تھا ۔وگرنہ تو ہم سے امید رکھیں کہ ہم کہیں بائیک بھول کر پیدل ہی رنگ روڈ کی طرف اپنے رین بسیرے کو روانہ ہوں۔ یہ بہت اچھی سوچ تھی کہ چلو اچھا ہوا ہیلمٹ بھول گئے ۔سو اس پہلی کو نہ سہی اگلی یکم کو تو ہم ضرور خرید لیں گے۔مگر ہیلمٹ جو نکل آیاتو اب پرانے کو چھوڑ کر نیا ہیلمٹ خریدنا مزید مشکل ہو گیا ہے ۔اس سے یہ سبق ہر گز نہ لیا جائے کہ خود ہماری بہتری کی خاطر کوئی یارِ دیرینہ اب ہمارے ہیلمٹ کو اچک لینے کی کوشش کرے‘ اخباری تحریر کا فائدہ تو یہ ہوا اورزبردست ہوا ۔ہمیں اپنے الفاظ کی کاٹ اور اس کی خراش اور اثرات کا اتنا اندازہ تو ہوا کہ عینک کے بارے میں جو ہم نے اپنی فریاد الفاظ میں محفوظ کی تو جھٹ سے دروازے کی گھنٹی بجی اور کھٹ سے ذوالفقار وکی ہمارے دروازے کے باہر کھڑے مسکرا رہے تھے ‘ انھوں نے کہا لالہ جی اپنی عینک تو لیں میرے آفس میں بھول گئے تھے‘کہنے لگے میں نے سوچا اس سے پہلے کہ کسی کالم میں عینک گم شدگی کے ساتھ میرا نام بھی آجائے میں خود عینک دے آ¶ں ‘مگر آپ خاطر جمع رکھیں وہ جملہ ابھی تک ہمیں یاد نہیں آیا‘ لگتا ہے کہ اس کےلئے بھی اشتہار دینا پڑے گا ‘کیونکہ دماغ کے ایئر پورٹ پر اتنا ٹریفک ہے کہ مشکل سے اس کنٹرول ٹاور سے اس اڑن کھٹولے عنوان کو اس جملے کو لینڈ کر لینے کی اجازت مل پائے۔