بہت افسوس ہوتا 

جب اپنے شہر کے مصروف ترین بازاروں سے گزر ہوتا ہے تو بہت افسوس ہوتا ہے۔جو چیز جھٹ سے دامن کو گھیر لیتی ہے وہ ان گھنے بازاروںمیں کتابوں کی دکانوں کا نہ ہوناہے۔ اس پر مجھے بہت افسوس پہنچتا ہے ۔وہ دکانیںجو کبھی معیار ہوا کرتی تھیں ان کا تو وجود ہی سرے سے اٹھ گیاہے۔ وہ دکانیں خرید و فروخت کی دوسری اشیاءکے مراکز بن گئی ہے۔جہاں پر گارمنٹس اور دوسرے ساز و سامان برائے فروخت پڑے ہیں۔ مگر کتابوں کی دکانیں تو ناپید ہوگئی ہیں۔میں یہ نہیں کہتا کہ ناپید ہوئی جا رہی ہیں ۔بلکہ پشاور صدر جو بازار کتابوں کی مشہور دکانوں کے لئے معروف تھا وہ دکانیں بھی نہ رہیں۔ ایک آدھ ہو تو ہو ۔کالی باڑی کی طرف چلے جائیں تو اندرون بازار آپ کو پرانی کتابیں اور رسالے وغیرہ مل سکتے ہیں ۔یا پھر اگر قصہ خوانی میں کتابوں کی دکانیں بالفرض ہیں تو وہاں او رکالی باڑی صدر میں صرف درس و تدریس کی کتابیں فروخت ہوتی ہیں۔اگر یہ مجبوری کا پڑھنا پڑھانا نہ ہوتا تو یہ کتابیں بھی لوگ نہ خریدتے‘ بعض کالجوں میں کتابوں کی شکل میں علمی معیار کی کتب ضرور موجود ہیں مگر اب بعض کالجوں کی لائبریریوں میں کتابوں کی جگہ کمپیوٹر پڑے ہیں جن میں سینکڑوں کتابیں اپ لوڈہیں ۔مگر وہ محتاجی بھی اب نہیں رہی اب تو کسی کے پاس اچھا موبائل ہو اور اس میں سٹوریج زیادہ ہو تو کافی سے زیادہ کتابیں بلکہ ایم اے اردو کا سارا کورس آن واحد میں مانگ کر موجود کر دیا جاتا ہے۔یہ بہت بڑی ترقی ہے ۔اس لحاظ سے یہ تو اچھی بات ہے کہ مفت میں ہر کتاب مل جاتی ہے۔پہلے پہلے کتابیں مہنگی ہونا شروع ہوئیں تو کہا گیا کہ کاغذ بہت مہنگا ہو گیا ہے۔کیونکہ اس کی ڈیمانڈ تھی ‘اسلئے سپلائی بھی اسی طرح تھی ۔مگر اب تو پبلک ڈیماند کچھ اور شکل اختیار کر گئی ہے ۔اب تو نہ ڈیمانڈ رہی اور نہ ہی کتاب گھروں میں کتابوں کی فروخت رہی ۔لوگ دھڑا دھڑ موبائل ضرور خرید رہے ہیں مگر کتابیں نہیں خریدتے ۔یہ چیزیں مفت میں حاصل کرنا چاہتے ہیں۔اگر پچاس ہزار کا موبائل وہ بھی گھٹیا سا نہ خریدیں تو اس رقم میں کافی سے زیادہ کتابیں گھر میں لا کر شوکیس میں جمع کی جاسکتی ہیں۔یہ الگ بات کہ وہ پڑھیں نہ پڑھیں مگر شوکیں کو بھر دیں تاکہ ڈرائینگ روم میں کتابوں کی اس آبشار کی وجہ سے آپ کے ذہن کے مصنوعی طور پر زرخیرز ہونے کا پتا چلے ۔بہت دکھ ہوا اس دن ایک دوست فرما رہے تھے کہ یار وہ کتاب کی فلاں دکان بھی خیبربازار میں نہ رہی اور قصہ خوانی میں بھی کتابوں کی مشہور شخصیات کی دکانیں اب خالی ہیںاور پھر صدر میں بھی وہ رونق جو کتابوں کے حوالے سے ان دکانوںپر تھی ختم ہو چکی ہے۔کیوں نہ ہوگی اس لئے کہ لوگوں کی ترجیحات بدل گئی ہیں۔لوگوں کو اب ساز و سامان کے ساتھ دلچسپی ہو گئی ہے ۔لوگ اب روزمرہ کی ضرورت کا سامان خریدنا چاہتے ہیں۔ پھر موبائلوں نے بھی تو کام خراب کر دیا ہے۔موبائل پر گوگل کو کھنگھالیں کتاب اگر نہ ملے تو کسی ٹاپک پر آپ کو بھرپور مواد مل سکتا ہے۔اتنا کہ آپ پڑھ کر تھک جائیں مگر گوگل کی اپنی کتاب میں تھکن کے آثار تک نمایا ںنہیں ہوںگے۔پھر باہر ملک کی لائبریریوںسے بھی کتابیں اپنے کمپیوٹر میں ڈا¶ن لوڈ کر کے پرنٹر کے ذریعے اس کا پرنٹ لے کر کتابی شکل میں سامنے میز پر رکھ دیں۔جب اس حد تک سہولت حاصل ہو جائے تو باقی کیا بچتا ہے۔آج کل کے سٹوڈنٹ بھی موبائل کی وجہ سے بہت زیادہ چالاک ہو چکے ہیں۔استاد پڑھا رہا ہوگا اور وہ وہی موضوع اپنی گودمیں چھپائے ہوئے موبائل سے نکال کر استاد سے آگے آگے کتاب کی سطروں پر دوڑ رہے ہوں گے ۔ نیا زمانہ ہے نئے صبح شام ہیں۔ سب کچھ تو نیا ہو چکاہے۔پھر جو کتاب لازمی خریدنا ہے وہ مہنگی ہو اور بچوں کو روٹی کھلانا ضرور ہو تو پھر ترجیحات بدل جایا کرتی ہیں۔