بغیر شرائط کے 

رنگ روڈ ہے اور سوزوکی پک اپ میرے آگے آگے جا رہی ہے ‘ڈرائیور بڑے تحمل سے چلا رہا ہے اور ساتھ اس کی سواری گردن کے پیچھے شیشے سے پک اپ کو جھانک رہی ہے ۔میرا تجسس بڑھا اور میں آگے ہوا دیکھوں کہ پک اپ میں ڈرائیور کی پیٹھ پیچھے ہو کیا رہا ہے جو اتنی دلچسپی ہے‘ جب دیکھا تو موبائل پر گیم جاری تھی ۔ دو بندے انتہائی انہماک سے موبائل کو اپنے سامنے بچھا کر اس پر گرے جا رہے تھے‘ میرے ذوقِ تجسس نے مجبور کیاتو میں نے کنفرم کرنے کی خاطر ان سے ہنس کر پوچھا اور ساتھ اشارہ بھی کیا تاکہ میری بات تیزی سے جاتی ہوئی گاڑی کی سواریوں کی سمجھ میں آ جائے‘ میں نے کہا یہ کیا ہورہاہے ‘ میں نہ پوچھتا مگر ان میں سے ایک نے چیخیں لگائیں شور مچایا اور فاتحانہ انداز سے ہاتھ اوپر کئے ۔ اس پر اس کے ساتھی جو اس کی کمر کے پیچھے بیٹھے اپنے اس دوست کو فالو کر رہے تھے بہت خوش تھے۔ میں نے سوال کیا تو معلوم ہوا کہ لڈو کی گیم ختم ہوئی ہے‘ ظاہر ہے کسی نے جیت جانا ہے اور کسی نے ہار جانا ہے‘میں نے بھی ان کا تماشا رواں دواں موٹر سائیکل پر سوار ہوکر بطور تماش بین ایک منٹ کےلئے دیکھا ‘موبائل پر لڈو کھیلنے کا آن لائن اور موبائل سسٹم کے تحت یہ کھیل اپنی جگہ پُرلطف تھا ‘ میں ہنسا تو ان میں سے ایک نے کہا کولڈ ڈرنک کی شرط لگی تھی ‘ وہ تو خیر آگے نکل گئے اور میں پیچھے کہیں رہ گیا مگر میں ذہنی طور پر ان سے بھی آگے رواں دواں تھا ‘ مگر ان کو اس کا کیا احساس ہو پائے گا کیونکہ احساس تو بے حس لوگوں کے اندر نہیں ہوتا ۔میری سوچ میں گرہ پڑ گئی کہ کیا ہم کوئی گیم بھی ہو بغیر شرائط کے نہیں کھیل سکتے ‘ میرے اندر ہی سے جواب آیا کہ سر جی کس زمانے کی بات کرتے ہو‘ بغیر شرطوں کے بھی بھلا کوئی گیم ہو سکتی ہے اور کون کھیلتا ہے آج اس قسم کی گیمیں نہیں رہیں‘ گیم تو گیم ہے مگر بغیر شرط کے کھیلنا جیسے جرم ہے ‘وہ اپنا کھیلتے رہے اور جیت کر جانے کہاں کھڑے کسی پکنک سپاٹ پر بوتلیں پی رہے ہوں گے ‘مگر ہماری قوم کا ایک المیہ یہ ہے کہ سات سمندر پار گھڑ دوڑ کیوں نہ ہو رہی ہو ہم یہاں بیٹھ کر ٹی وی پردیکھ رہے ہوںمگر ہم دیکھیں گے اور نہ صرف انٹر ٹینمنٹ حاصل کریں گے بلکہ اس پر شرطیں بھی لگائیں گے‘ گھوڑوں کے مالکان اور وہاں گرا¶نڈ کی انتظامیہ تو چھوڑ ہماری خود انتظام کنندہ گان کی بلا کو بھی پروا نہ ہوگی اور ہم روپے پیسے لگا کر خواہ جتنے ہو ں یہ گیم دیکھیں گے اور اس میں اپنے آپ کو شریک سمجھیںگے جیسے ہمارا اپنا کسی نمبروالا گھوڑا بیچ میں دوڑ رہا ہو‘گھر میں بیٹھ کر ہر قسم کے میچ ہم دیکھتے ہیں اور باقاعدہ طور پر اس میں اپنے آپ کو شریک سمجھتے ہیں‘ ٹیلی فون پریہاں سے کراچی تک ہماری پہنچ ہوگی اور وہاں سے ہم گیم کے جیت جانے اور نہ جیت سکنے کے بارے میں رقوم کی بکنگ کروا رہے ہوں ۔ہمیں تو نہ کسی پا پیادے سپاہی کا خوف ہوگا اور نہ ہمیں خود سے لاج آئے گی ‘بس کھیلنا ہے وہ اپنی جگہ میچ کھیلیں گے اور ہم اپنی جگہ اپنا یہ پیسوں سے لگایا گیا میچ کھیلیں گے ‘پھر یہ ایک دن کی تو بات نہیں اور نہ ہی ایک آدمی کی بات ہے ‘ہر شہر ہر گلی میں یہ تماشے ہو رہے ہیں۔ اگر ٹی وی پر میچ نہیں آ رہا تو موبائل لگا کر اس میں پیکیج کروا کے میچ دیکھا جا رہا ہے۔جب ٹیم ہاررہی ہوتی ہے تو دیکھنے والے کا رنگ زرد ہوتا ہے اور اسے سانپ سونگھ جاتا ہے یوںکہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں‘ پھر اس کو ہاتھ ہی لگا¶ تو دھڑام سے گر پڑے ‘اس حالت میں ہماری قوم گر رہی تو ہم تو گئے کام سے ‘ ہماری قوم کا تو یہ کام ہے کہ بٹگرام میں لٹکتے ہوئے بندوں کو کس طرح لمبے آپریشن کے ذریعے جان پر کھیل کر بچایا اور ریسکیو والوں کےساتھ مل کر ایک ٹیم ورک کے ساتھ جو صبر آزما میچ کھیلا او رجیت گئے اس پر پچیس کروڑعوام خوشیاں منا رہے ہیں۔ اگر ہم کامیاب ہوئے ہیں توسمجھو کہ ہم ہر امتحان میں کامیاب ہو سکتے ہیں‘ مگر ہم توجہ نہیں دیتے کہ ہم میں کون کون سی خوبیاں ہیں ہم کن صلاحیتوں کے مالک ہیں ‘میںکہوں ہم قوم کی حیثیت سے ایک قسم کے احساسِ کمتری کا شکار ہیںہم سوچتے ہیں کہ ہم کچھ نہیں کرسکتے‘ آپ یقین کریں کہ آپ وہ قوم ہیں کہ جو ہر مشکل گھڑی سے بہ آسانی نکل سکتی ہے۔