لکڑی کی مارکیٹ

بندے کو اپنا بچپن اور وہ علاقہ کبھی نہیں بھولتا ۔بڑے ہو کر ہی سمجھتا ہے کہ وہ شاندار ماضی والا گزرا زمانہ دوبارہ نہیں آئے گا۔کوئی کہیں رہا ہو اور کوئی کہاں رہائش پذیر رہا ہو ۔پھر ایسا تو ہے بھی کہ ویسا دور اور دوران کبھی لوٹ کر نہیں آئے گا ۔حال جتنا شان والا ہو اور یاد رکھنے کے قابل ہو مگر میرے بچپن کے دن کتنے اچھے تھے دن بہت یاد آتے ہیں ۔ان کا تو نعم البدل ہی کوئی نہیں ہوتا۔ہمارا بچپن بلکہ زندگی کی نصف سنچری وہیں گزری جہاں ہمارے آباو اجداد اپنے بچپن سے رہا کرتے تھے۔ جی ہاں چوک ناصر خان منڈی بیری پشاور کا وہ علاقہ جو نواب ناصر خان مغلیہ دورِ حکومت کے فرمان روائے پشاور کا علاقہ تھا۔ جہاں آج بھی اس کامزار عین کوچی بازار کی ایک تنگ اور چھپی ہوئی گلی میں موجود ہے ۔اس کی نشانی یہ ہے کہ دو ایک گلیاں چھوڑ کر وہاں حضرت جی بابا کا مزار ہے ۔یہاں دو مزار موجود ہیں ۔ حالانکہ یہ علاقہ قبرستان نہیں ۔یہاں تو کپڑے کی تہہ در تہہ مارکیٹیں ہیں اورجدید زمانے کی اشیاءبرائے فروخت موجود رہتی ہیں۔جب ہم چھوٹے ہوتے تھے تب سے آج تک یہ دو مزارات تاریخ کے ادوار سے جھانکتے ہوئے محسوس ہو تے ہیں ۔ایک اور مزار زیارت منڈی میں ہے جو پیر مرد کے نام سے جانا جاتا ہے ۔کل مجھے اس علاقے سے فون آیا ۔میں پہچان نہ پایا ۔مگر کہنے والے نے کہا میں حاجی عباد کا بیٹا بول رہاہوں ۔اس کا اتنا ہی کہنا کافی تھا۔ کیونکہ اس شخصیت کے نام کے آتے ہی ایک گم گشتہ تاریخ کے صفحے خود بخود الٹنے لگے اور وہ شاندار ماضی جو یہاں گزرا مجھے رہ رہ کر یاد آنے لگا ۔بس اس نام کے سنتے ہی آنکھیں بھیگ گئی۔ زمانے کے اوراق میں اور اس سمندر کی لہروں میں دریا¶ں کی شرار موجوں میں بعض ناموں کے موتی ایسے چھپے ہوتے ہیں کہ جن کا ذکر سنتے ہی آنکھوں سے آنسو رواں ہو سکتے ہیں ۔وہ شخصیت جن کامیں نے نام لیا کچھ ایسے ہی انسان تھے ان کے ساتھ یوں سمجھو کہ چوک ناصر خان لکڑ منڈی کی رونق وابستہ تھی۔ جسے میں لکڑ منڈی کہہ رہا ہوں وہاں پچھلے زمانے میں لکڑیاں ہی لکڑیاں فروخت ہوتی تھیں ۔آج میں یکہ توت دروازے کے باہر لکڑی کی مارکیٹ سے گزر کر آغہ میر جانی کی زیارت کی طرف جاتاہوں تو سب سے پہلے تحفہ مجھے وہ لکڑی کے برادے کی خوشبو جسم و جاں میں اترتی ہوئی محسوس ہوتی ہے ۔جب میں اپنے گھر کے باہر کی لکڑ منڈی میں سانس لیا کرتا تھا ۔کیا کیا لوگ تھے جن سے جہاں کی رونق تھی جن سے یہ لکڑ منڈی آباد تھی۔ ان میں ہر ایک کا نام لوں تو یہ کالم کا فریم چھناکے سے ٹوٹ جائے گا موتیوں کی مالا ٹوٹ کر بکھر جائے گی جس کو دل ہر وقت رولتا ہے ۔وہ شخصیات اتنی ہیں اور زبردست اور ہر دلعزیز ہیں دل کے ٹکڑے ہوں گے اور کوئی یہاں گرے گا اور کوئی وہاں گرے گا۔ آج کی نسل نے وہ زمانہ نہیں دیکھا جو ہم نے چالیس سال پہلے اور اس سے بھی پیچھے دیکھ رکھا ہے۔کیا پیارے لوگ تھے وضعدارجن سے بازار اور اس کے اطراف ان کے گھر تک سے ان کی خوشبو آتی تھی۔ ہائے وہ نہ رہے اور کون رہے گا۔ وہ جیدار جغادری لوگ جو یہاں گھومتے پھرتے تو ہم نیچے قد ہوکر ان کو سر اونچا کر کے دیکھتے زمین کیا کیا بلند وبالا درخت کھا گئی ہے۔جب وہ نہ رہے تو اور کس نے رہنا ہے ۔اب اس وقت یہ لکڑی کی مارکیٹ ہول سیل کی بھری پُری اربوں روپوں کے کاروبار کا مرکز ہے جس میں ٹافیوں سے لے کر ہر قسم کی وہ چیز ملتی ہے مگر یہاں اب عمارتی لکڑیاں فروخت نہیں ہوتی۔ یہاں تکے کباب حلوہ پوڑی کپڑے کی مارکیٹ بچوں کے کھانے کا روزمرہ کا سامان ۔غرض کیا ہے جو یہاں دستیاب نہیں ہے ۔اب اگر وہاں جائیں تو گم ہی ہو جائیں۔ کیونکہ رش ہوتا ہے ۔اس رش میں دوسرے کو کیا پہچان پائیں گے خود اپنی صورت پہچانی نہیں جاتی ۔خود لگتا ہے کہ میں کون ہوں اور یہاں کس لئے آ گیا ہوں۔اب تو اس علاقے میں جاتے ہوئے دم گھٹتاہے۔ کیونکہ جو لوگ یہاں اس علاقے کا دم خم تھے وہ جو نہ رہے تو لازمی موجودہ زمانے سے تعلق رکھنے والے کا تو دم گھٹے گا۔ ہائے کیا کیا پیاری شخصیات تہہ خاک جا کر سوگئیں جن کے ذکر ہی سے تحریر ِ ہذا کا شیشہ گر کر چکنا چور ہو جائے گا او رکرچیاںکہیں آنکھ میں گھس گئیں تو آنسو¶ں کی جگہ خون ٹپکنے لگے گا۔