خوشی کا دن

آج کے دن ضروری نہیں کہیں ولیمہ جاری ہو آج بارات بھی ہو سکتی ہے پھر شادی والوں کی مصروفیات اتنی کہ من پسند شادی ہال کی بکنگ نہ ہوتو آج کی شام مہندی کی رات میں بھی بدل سکتی ہے ۔پھر آج شادیوں کے علاوہ ہفتہ وار چھٹی بھی ہے ۔کوئی اپنے کس پیارے کے سنگ بیٹھا ہوگا اور کوئی اپنے کس جگر کے ساتھ ہوگا۔ ہائے کلیجہ کٹ جاتا ہے جب عین ولیمہ کا کھانا جاری ہو اور جس نے پرہیزی کھانا تناول کرنا ہو وہ شادی کے مہمانوں کے درمیان بیٹھ کر دوسروں کے ہنستے ہوئے منہ کس بے کسی سے دیکھتا ہوگا۔مومن کا شعر یاد آیا ہے ۔” اگر نہ ہنسنا ہنسانا کسی کا بھا جاتا ۔ تو بات بات پہ یوں رو دیا نہ کرتے ہم“ مگر اس وقت کلیجہ منہ کو آنے لگتا ہے جب کھانا دیکھ کرمریض اپنے زندگی سے گزرجانے کی ٹھان کر سوچیں کہ ہم آخر کدھر جائیں ” اب یہی جی میں ہے کہ مر جائیں“۔ وہ شوگر کے مریض ہو کر بغیر انسولین لگائے جھٹ سے فیرنی اور دوسری میٹھی ڈشوںپر ہاتھ مارتے ہوں۔ اگر وہ انسولین نہیں لگا رہے تو یہ نہ کہیے کہ جان کر ایسا کرتے ہیں ۔پھر ادویہ کون سی ارزاں ہیں۔دوائیں دو ایک روز قبل اور بھی مہنگی ہوگئی ہیں۔پھر بعض جان بچانے والی بلکہ دماغی امراض کی ادویات تو بلیک میں فروخت ہو رہی ہیں ایک پلتا جو چالیس روپے کا تھا اس کو کوئی تین سو اور کوئی ساڑھے تین اور کوئی چار سو میں فروخت کر رہا ہے ۔مگر یہ سب چھپ چھپا کر ہو رہا ہے ۔ایسے میں اگر وہ شوگر والا ولیمہ کے کھانے کے دوران میں سویٹ ڈش کی طرف ہاتھ بڑھا رہا ہے تو اس پر ترس کھائیے نہ کہ یہ کہ اس کو کھانے ہی نہ دیا جائے۔ اپنی طرف سے اگر نصیحت کر لیںاور وہ بھی چپکے سے اس کے کان میں جاکر بتلا دیں تو حرج نہیں ہے کیونکہ اس نے کون سا آپ کی بات پرعمل کرنا ہے۔ اگر وہ اس تقریب ِ ولیمہ میں آیا ہے تو سوچ سمجھ کر آیا ہے ۔گھر سے اس نے جہاں کپڑوں وغیرہ کی تیاری کی وہا ںاپنا ذہن بھی تیار کیا ہے کہ میں نے وہا ں”گول میز کانفرنس“ میں ولیمہ ہال کے اندر کھیر پر مربہ بھی ڈالنا ہے مگر اس کے باوجود کہ ذیابیطس کے مریض ہوں اور وہ پرہیز سے کام لے رہے ہوں تو آفرین ہے ان پر کہ وہ ایسا کرتے ہیں لیکن اگر وہ دو ایک چمچ بطور ذائقہ اپنے معدہ کی نذر کر لیں تو کسی کا کیا جاتا ہے۔کہتے ہیں کہ آپ بلڈ پریشر کے مریض ہیں ۔ٹینشن سے اپنے آپ کو دور رکھیں۔مجھے یہ تو بتلائیں کہ ایک بندہ شوگر کے علاوہ ہائی بلڈ پریشر کا مریض ہو تو وہ کیا کرے‘ شادی ہی میں شرکت نہ کرے ۔اگروہ نہ جائے تو کیا کرے اس کی نمائندگی کرنے والا بھی کوئی نہ ہو تو کیا وہ وہا ںسے سوکھے منہ واپس آئے ۔ پھر بھلا اس سے بڑی ٹینش اور کیا ہوگی کہ ہر قسم کے زرق برق کھانے میز پر سجے ہوں اور کہا جائے کہ اس میں سے آپ نے چاول نہیں کھانے ۔ارے اگر چاول نہیں کھائے گا تو کیا کرے‘کیونکہ ٹینشن لی ہوگی اور ٹینش تو بڑی خراب چیز ہے اور پھر وہ بھی چاول نہ کھاسکنے کی ٹینشن ہو تو وہ بہت خطرناک ہے اس کے اختلاجِ قلب میں اضافہ نہ ہوگا۔یہ بہت مشکل کام ہے کہ انسان پرہیز قائم کر سکے اور تادیر پرہیز کرے۔ ہمارے جاننے والے تھے شوگر تھا مگر پرہیز میں پچیس سال سوکھے منہ گزار دیئے ۔ان کو خاندان والے اب تک یاد کرتے ہیں ۔ویسے توبہ شکن قسم کے کھانے گول میز پر سجے ہوں اور اوپر سے اور بھی لائے جا رہے ہوں او رسارے شرکاءان کھانوں پر ٹوٹ پڑے ہوں تو نہیں لگتا کہ ان میں کوئی شوگر کا اور کوئی ہائی ٹینشن کا مریض ہوگا۔ جیسے ہسپتال خدا نہ کر ے کہ خود یا کسی کو دیکھنے بھی جانا ہو تو وہاںیوں لگتا ہے کہ دنیا میں کوئی صحت مند انسان نہیں ہے‘ شوگر کے مریض کی جو ہائی بلڈ پریشر کا شکار ہو اس کی دو ٹینشن ہیں ایک تو وہ چاول نہیں کھا سکتا اور دوسرے یہ کہ وہ پلا¶ نہیں کھا سکتا ۔آسان مطلب یہ کہ وہ ہر طرح چاول کے نزدیک بھی نہیں جائے گا ۔ورنہ تیار رہے کہ اس کے مرض میں اضافہ ممکن ہے مگر ایسے لوگ حالات و واقعات کے کارن چالاک ہو جاتے ہیں ۔گویا ڈاکٹر کو بھی جُل دے جاتے ہیں اور بیماری کی آنکھوںمیں بھی دھول جھونک دیتے ہیں ۔