انسان اور پھرایک اداکار

بلیک اینڈ وائٹ اور خاموش انگریزی فلموں کے معروف کامیڈی کردار چارلی چپلن کا کہنا تھا کہ میں برستی ہوئی بارش میں اس لئے روتا ہوں کہ میرے آنسو کسی کو نظر نہ آئیں۔ مگر اپنے اپنے زمانے کی بات ہے ۔وہ آج ہوتا تو اسے آنسو بہانے کے لئے ابرِ باراں کی ضرورت نہ پڑتی ۔ وہ اس سلسلے میں بائیک کی تعریف کرتا او رکہتا کہ میں بائیک اس لئے پسند کرتاہوں کہ اس پر سوار ہو کر جب میں اپنی محرومی اور ارمانوں پر اشک بہاتا ہوں تو مجھے کوئی بھی نہیں دیکھتا ۔اس حد تک کہ میری پچھلی سواری کو بھی میرے رونے کا حال معلوم نہیں ہوپاتا۔کیونکہ شہر کے ٹریفک میں ہر کسی کو اپنی پڑی ہے ۔اس کے پاس وقت ہی نہیں ہوتا کہ وہ کسی دوسرے پر دھیان دے کیونکہ یہاں کسی کے چہرے کو غور سے دیکھا وہاں وہ کسی سے ٹکرا جائے گا۔ چارلی بائیک کا ضرور کہتا کیونکہ موٹر بائیک پر ساتھ ساتھ آنسو کے موتی پروتا اور وہ بے رنگ موتی کسی کو نظر بھی نہ آتے اور بائیک پر تیز جانے کی وجہ سے وہاں آنسو ٹپ ٹپ بہتے اور اوس کے قطروں کی طرح کہ پھولوں کو حسین بناتے ہیں تیز ہوا میں ساتھ ساتھ سوکھتے جاتے ۔اگر بائیک کسی کے پاس کھڑی ہو بھی جاتی تو تب تلک آنسو¶ں کا امڈتا ہوا سیل رواں خشک ہو چکا ہوتا ۔گویا آنسو¶ں کا خود رو کارخانہ ہوتا اور ساتھ ساتھ اشکِ رواں اور ساتھ ساتھ ان کے خشک ہوجانے کا عمل ہوتا۔ویسے جو کردار ٹی وی اور فلموں ڈراموں میں آکر ہنساتے ہیں وہ اندر سے بہت دکھی ہوتے ہیں ۔ کسی کومعلوم بھی نہیں ہو پاتا کہ دوسروں کو ہنسانے والا اندر سے کتنا پاش پاش ہے ۔کسی کو کسی کے دکھ کا حال کیا معلوم ہو سکتا ہے ۔دنیا ہزاروںعنوانات پر مشتمل ہے او رکسی صاحبِ کمال کی منتظر ہے ۔اسی لئے کہا کہ کہ بائیک پر آنسو¶ں کے خشک ہوجانے کا بہترین بندوبست ہے ۔ہوا ہو نہ ہو مگر جب بائیک فراٹے بھرتا ہوا جا رہا ہو تو بہتے آنسو خو د بخود ہوا کا رزق بنتے جاتے ہیں ۔سو چارلی چپلن آج ہوتے تو کبھی بارش کا تذکرہ نہ کرتے کیونکہ آج رونے کو چھپانے کے اور سامان بھی میسر ہیں۔خیر اداکار صدا کار پھر سٹیج اداکاری ہو ۔ہنسانے والا کہاں لکھا ہے کہ گھرمیں بھی دوسروں کو تو کیا خود بھی ہنستاہو۔ یہاں اسی طرح ہو رہا ہے۔سب اداکار ہیں کوئی سنجیدہ اور کوئی کامیڈی اداکارہیں ۔ مگر کسی کو ہنسانا ہو تو اگر پہلے خود ہنس لو تو سامنے والا کبھی بھی نہیں ہنسے گا ۔ہنسانے کے لئے آپ کے پاس بہت مضبوط بات ہونی چاہئے ۔پھر اپنی بات پر خود نہیں ہنسنا ہوتا ۔ہاں کوئی اداکار اپنے جسم کی حرکات سے بھی اور اپنے الفاظ سے بھی حاضرینِ محفل کو ہنسا سکتا ہے ۔اسی لئے میں نے بائیک کا حوالہ دیا کہ اگر اپنے آنسو چھپانا ہوں تو بائیک اس سلسلے میں بہت مدد گار ہوگی ۔کیونکہ پشاور پرتو عرصہ ہوا کہ بادل نہیںبرس رہے تو پھر جو رونا چاہتے ہیں وہ کیسے بارش کے نیچے جائیں اگر باہر جائیں او ربغیربارش کے رونا شروع کردیں شاید ان کا ساتھ دو ایک بندے دیں مگر زیادہ تر ان کودیکھ کر آنکھ بچا کر بغل بیچ سے پتلی گلی سے نکل جائیں گے کیونکہ وہ اپنے ہوتے ہیں ۔کیونکہ اگراپنے کھڑے ہوگئے اور رونے کا سبب پوچھ لیا تو بندہ کسی پیارے کا نام کیوں لے اور الٹا اس کو بے نقاب کر دے کیوں نہ خفیہ رکھے اور رو دے تو اپنے اس لئے گزر جائیں گے کہ کہیں لینے کے دینے نہ پڑ جائیں ویسے ایک شعر یاد آیا ہے ” اے دل تجھے رونا ہے تو دل کھول کے رولے۔دنیا سے تجھے بڑھ کے ویرانہ نہ ملے گا“۔ہنسانے والے کے پاس بہت خزانہ ہوتا ہے کہ وہ دوسروں کو اگر ہنسائے مگر حیران ہوں کہ یہ خزانہ خود ان کے کچھ کام نہیں آتا۔ویسے دیکھا جائے تو کسی کو ہنسنا اور اسے چند لمحوں کے لئے غم و فکر سے آزاد کرنا ایک بہترین خدمت بھی ہے تاہم یہ کوئی آسان کام ہر گز نہیں اس کے لئے پہلے اپنے غموں کو بھلانا پڑتا ہے۔