سوچ کا فرق

تاریخی درسگاہ کے سب سے اکثریتی اور مضبوط سٹیک ہولڈر حلقے اساتذہ بالخصوص ہمیشہ سے با اثر رہنے والے دھڑے یا گروپ فرینڈز نے قائمقام وائس چانسلر کے طور پر پروفیسر جہان بخت (تمغہ امتیاز) کی تقرری کے خیر مقدم کے بعد نگران وزیر تعلیم کی حیثیت سے پروفیسر ڈاکٹر محمد قاسم جان ( اعزازات بے شمار) کو بھی نہایت گرمجوشی سے خوش آمدید کہتے ہوئے اسے خوش آئندہ قرار دیا ‘ بلا شبہ کہ دونوں یہ ضرور چاہیں گے کہ مادر علمی کے نام آ جائیں اور یونیورسٹی کو موجودہ گھمبیر مالی حالت سے نکال کر یہ ثابت کر دیں کہ پشاور یونیورسٹی مزید یعنی مستقبل میں بھی قائم ہو گی اور چلتی رہے گی مگر جو آثار نمایاں ہیں اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ہماری تعلیمی پالیسیوں اور نظام ہائے تعلیمات کیساتھ ساتھ بالخصوص اعلیٰ تعلیمی اداروں کو دیوار سے لگانے کی موجودہ صورتحال کے ہوتے ہوئے جامعات کا مستقبل تانباک نظر نہیں آ رہا ‘ پیوٹا یا بیسک سٹیک ہولڈر حلقے کا ایک سوال یا اعتراض یہ بھی ہے کہ جامعہ کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد ادریس نے تو بار ہا یہ دعویٰ کیا تھا کہ ان کی کوششوں سے 
جامعہ کو مالیاتی اداروں کے قرضوں سے نجات مل گئی اور مالی طور پر اس قدر مستحکم ہو گئی کہ مستقبل قریب میں مالی ابتری یا بہ الفاظ دیگر تنخواہوں پنشن اور مراعات یا الاﺅنسز کی ادائیگی میں کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی؟ تو اب جامعہ اربوں روپے بجٹ خسارے کا کیونکہ شکار ہو گئی؟ دراصل جو لوگ اس بابت اور اس کے پس منظر سے واقفیت رکھتے ہیں ان کے نزدیک یہ بات اتنی سیدھی سادی اور مختصر نہیں ہے بلکہ واقعہ یہ ہے کہ پروفیسر محمد ادریس نے سوچا ہو گا کہ حکومت کی طرف سے حسب ضرورت مالی سرپرستی یا گرانٹ تو ملنے والی ہے ہی نہیں لہٰذا بہتر یہ ہو گا کہ ہر مہینے کے کنگال پن‘ مایوسی‘اضطراب اور احتجاج سے بچنے کے لئے اپنی مدد آپ کا طریقہ اپناتے ہوئے جامعہ کے ملازمین تھوڑا سا اپنا پیٹ کاٹنے اور نوالہ کم کرنے کی شکل میں قربانی پیش کرکے جامعہ کو مالی استحکام سے ہمکنار کر دیں گے مگر شو مئی قسمت کہ ایسا نہ ہو سکا اور یونیورسٹی ملازمین نے تھوڑی سی کٹوتیوں کیخلاف بڑے بڑے احتجاج ریکارڈ کروا دئیے ‘ یونیورسٹی کے کلاس فور اور کلاس تھری ملازمین نے تو یہ بھی کہہ دیا کہ اگر بات قربانی کی ہو تو پھر تیس چالیس ہزار تنخواہ دار غریب ملازمین کی بجائے ان لوگوں بالخصوص وائس چانسلر اور انتظامیہ افسران کو زیادہ مالی قربانی دینی چاہئے جن کی تنخواہیں ہزاروں میں نہیں بلکہ لاکھوں میں ہیں ‘ بہرکیف مسئلہ اپنی جگہ برقرار ہے اور مشکل صورت یہ درپیش ہے کہ اگست کا مہینہ ختم ہونیوالا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ تنخواہوں کےلئے220 ملین اور پنشن کیلئے اس سے قدرے کم پیسوں کی ضرورت کہاں سے پوری ہو گی ؟ ملازمین اتحاد نے تو اگست کے آخری عشرے سے بازوﺅں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر علامتی احتجاج 
کا آغاز کر دیا جبکہ اس میں وقت کےساتھ ساتھ بالخصوص یکم ستمبر سے شدت آنے کا بھی خدشہ بڑھتا جا رہا ہے ‘ دوسری جانب یونیورسٹی انتظامیہ بالخصو وائس چانسلر کے توسط سے ٹریژرز کے اس خط کا کوئی مثبت جواب غالباً نہیں آیا جس میں حکومت کو پیشگی طور پر مطلع کیا گیا ہے کہ جامعہ اگست کی تنخواہوں اور پنشن کی ادائیگی سے قاصر ہے یہ بات اپنی جگہ کہ تعلیم ایک بنیادی حق ہے جو کہ آئینی طور پر ریاست کی ذمہ داری ہے جبکہ تعلیمی اداروں کا چلانا حکومت کے ذمے ہے لیکن جو کچھ سامنے ہے وہ اظہر من الشمس ہے ایسے میں قابل غور امر یہ ہے کہ اگر سوچ کے فرق کو درمیان سے نکال کر بالائے طاق رکھا جائے تو کیا پروفیسر محمد ادریس کی یہ سوچ درست نہیں تھی کہ جامعہ کو مالی ابتری سے نکالنے کیلئے اپنی مدد آپ کے جذبے کے تحت اپنی جانب سے تھوڑی سی قربانی کی ضرورت ہے ؟ ہاں البتہ اس میں یونیورسٹی کے ان لوگوں کو زیادہ بوجھ برداشت کرنا ناگزیر تھا جو زیادہ مالیات اور مراعات سمیٹ لیتے ہیں اب جبکہ ریاست اپنی ذمہ داری پوری نہیں کر رہی تو کوئی بتائے کہ” آخر اس درد کی دوا کیا ہے“