کتاب کہانی

وہ ہمارے گھر آئے ۔چائے کا دور چلا ۔انھوں نے بیٹھک کے درو دیوار دیکھے ۔الماریوں میں سجے ہوئے برتن دیکھ کر کہا آپ اپنے لئے لائبریری بنائیں۔مجھے اندر اندر ہنسی آئی کہ یہ لو بالشت بھر کے تو ہیں کل ہی تو پیدا ہوئے اور سفید ریش لوگوں کو نصیحت کرتے ہیں۔ اچھی بات ہے نصیحت کسی بھی عمر والے کا حق ہے اور کسی بھی ایج والے کا فرض ہے کہ سنے۔کیونکہ ہم پروفیسر کے نام سے جو مشہور ہیں تو اگلا یہ توقع رکھتا ہے کہ ان کے ڈرائنگ روم میں بڑی لائبریری ہوگی۔جن میں سے انھوں نے سب کتابیں زیرِ مطالعہ لائی ہوں گی ۔اسی لئے تو پروفیسر بنے ہیں۔مگر انھیں کیا معلوم صرف نام ہی ہے ایک آدھ کتاب پڑھی تو پڑھی باقی تو ویسے ہی کسی دل زدہ بچے کی طرح مچل رہی ہیں کہ ہمیں ہاتھو ںمیں لیا جائے۔کتابیں تو خیر نہ تھیںمگر کورس کی کتابیں ضرور موجود تھیں جو کالج وغیرہ میں تدریس کے اوقات کے لئے بطور اوزار کام آتی ہیں۔مگر وہ بھی نظر نہیں آ رہی تھیں۔اسی لئے تو انھیں ہماری پروفیسری پر شک گزرا اور صحیح گزرا ۔ کیونکہ ٹیچنگ کے شعبہ سے وابستہ لوگوں کے گھروںمیں بیٹھک اندر شو کیسوں میں برتن نہیں سجے ہوتے وہاں کتابیں تالوں کے اندر شیشوں میں سے حبس زدہ سہی مگر نظر آ جاتی ہیں۔لیکن ہمارے ڈرائنگ روم میں تو ایسا نہ تھا ۔ہم نے تو اک عمر گزاری ہے ‘ہماری تو تیسری پُشت ہے اس مداحی میں ‘باپ دادا اور اب ہمارے بیٹے پڑھنے پڑھانے کے شعبہ سے وابستہ ہیں۔باپ کی کتابیں ہمیںاور ہماری کتابیں ہمارے بچوں کو وراثت میں پہنچ چکی ہیں۔بلکہ پردادا بھی سکول نہیں پڑھے تھے لیکن زمیندار اخبار ان کا اوڑھنا بچھونا تھا ۔اس طرح کہ اردو کے شاعر تھے اور خطاط بھی تھے ۔لکڑی کا کاکاروبار تھا نام عبدالرشید اور تخلص راشدتھا۔ان کا ایک شعر ملاحظہ ہو ”طاقت نہیں رہی میرے اب جسمِ زار میں۔ آ اے اجل پڑا ہوں تیرے انتظار میں“۔باقاعدہ ڈائری لکھتے تھے ۔بچیوں کی شادی کا احوال اول سے آخر تک بمعہ اخراجات لکھ چھوڑا ہے ۔مثال کے طور پر ایک بچی کی پوری شادی میں دو سو روپے کا خرچہ ہوا اور سب کا سب تفصیل سے لکھاہے۔کبھی پڑھنا ہو تو حیرانی ہوتی ہے کہ آج تو ہمارے ایک دوست نے بچی کی شادی پر بائیس لاکھ روپیہ لگا دیا۔پھر یہ تو غریبانہ پیشکش ہے ۔اب تو ا س سے زیادہ خرچہ ہو جاتا ہے۔مقصد یہ ہے جتنا گڑڈالو اتنا میٹھا ہوگا۔اب تو کتابوں کے بجائے شوکیس میں مہنگے برتن اور باہر سے منگوائی گئی کراکری کے سیٹ پڑے ہوتے ہیں۔ دروازے پر گاڑی کھڑی نہ ہو تو کیا مزا ہوگا۔مگر ہمارا معاملہ کچھ اور ہے اور قابلِ غور نہیں ہے۔ہم اس بالشت بھر کے لڑکے کو کیاسمجھاتے کہ ہم نے کئی لائبریریاں ہوا میں اچھال دی ہیں ۔بوریوں میں لاد کر کتابیں رکشوں میں چڑھائے کتب خانے جا کر چھوڑآئے۔کیونکہ اچانک سوچ آئی کہ یونہی پڑی پڑی خراب ہو جائیں گی کیوں نہ کسی لائبریری کو دے آئیں تاکہ وہاں لوگ ان سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کر سکیں۔پھر ایک بار نہیں دو ایک بار ۔ اس کے علاوہ جو آیا اس نے کتاب دیکھی پسند آئی اور ساتھ لے گئے کہ یار میں اسے ذرا تفصیل سے دیکھوں گا اور پھر پہنچا دوںگا ۔انھوں نے کہا تو سہی مگر آج تک جو دوست یاررشتہ دار کتابیں ساتھ لے گئے ان کو کبھی نہ دیکھا کہ وہ اب اتنے بھی فارغ ہو ںکہ کتاب لے کر ہمارے غریب خانے پر واپس تشریف لائے ہوں ‘اسی لئے تو بیٹھک کے مہمان نے بھی بات اگل دی کہ آپ کی بہت سی کتابیں تو میرے پاس بھی پڑی ہیں۔میں نے کہا اچھی بات ہے پڑھا کریں اور بار بار پڑھا کریں۔انھوں نے دیکھا کہ یہ تو کتابیں نہیں مانگ رہا سو اس کو اپنی ملکیت جان کر کہا اجی اتنے کام ہوتے ہیں کہ کتاب پڑھنے کا وقت کہا ںملتا ہے۔صاحبو ایسا ہے کہ جو کتاب لے گیا اس نے واپس نے کی اور ہم نے دوستی یاری او ررشتہ داری کو کتاب سے زیادہ عزیز جانااور پروا نہ کی ۔ہم اصل میں کتاب سے زیادہ آمنے سامنے بیٹھ کر اہلِ علم کی صحبت کے قائل ہو چکے ہیں ‘مگر یہاں تو اتنے حسین و جمیل رشتہ داردوست یار ہیں کہ ہماری کتاب لے گئے تو نہ ہم نے مانگی اور نہ انھوں نے واپس کی۔ وہ سمجھے کہ ہم بھولے ہوئے ہیں ہم سمجھے وہ بھول گئے مگر نہ تو ہم نے یاد دلایا اور نہ ان کو بھولے سے یاد آیاکہ مجھے کتاب کے بارے میں یاد دلائیں۔