ایک کل اور ایک آج

تو کیا اب یہ طے ہے کہ ہاتھوں میں موبائل ضرورہوگا ۔ ایک ہاتھ اگر خالی ہو تو دوسرے میں موبائل تھاما ہوگا۔ خواہ کسی کا موبائل کے ساتھ لینا دینا نہ ہو مگر وہ اس کو اٹھا کرگھومے گا۔حالانکہ وہ شہری یہ موبائل گھرمیں بھی رکھ کر آ سکتا تھا۔موبائل کے بغیر بھی تقریبات میں حصہ لیا جا سکتا ہے۔مگر کیا ہے کہ اب گراں ترین موبائل سٹیٹس سمبل بن چکا ہے ۔جس کو میری طرح موبائل چلانا بھی پورے طور سے آتا نہ ہو اس نے بھی نئی ایجاد کو ہاتھوں میں تھامے رکھنا ہے ۔جو وضعدار اشخاص اس سائنس ایجاد کو ساتھ لے کر نہیںگھومتے وہ اپنے ساتھ بندہ لے پھرتے ہیں ۔جو انھیں موبائل پر آنے والے ایس ایم ایس اور وٹس ایپ میسیج بارے گاہے گاہے آگاہی دیتے رہتے ہیں۔ مشہور اور مصروف شخصیات کو کیا پڑی ہے کہ اس اضافی بوجھ کو گلے کی پھانس بنا کر چلتے پھرتے نظر آئیں ۔ وہ اپنا ملنا ملانا کریں گے اور ان کے موبائل کو ان کا سیکرٹری لے کرسنبھالے گا ۔صاحب نے ہدایات دے رکھی ہیں کہ بغیر نام کے ابھرے کوئی کال اٹینڈ نہیں کرنا۔سیکرٹری کو معلوم ہوتاہے کہ مجھے کس کال پر یس کا بٹن دبانا ہے ۔کیونکہ صاحب یا صاحبہ اسی کال کے انتظارمیںہیں۔یہ کال گھر سے بھی ہو سکتی ہے اور دفتر سے بھی ایمرجنسی کے طور پر آسکتی ہے۔سو اب یہ طے ہوچکاہے کہ موبائل ہاتھ میں ہوگا۔پھر بھلے اس پر کال آئے نہ آئے اور اس پر گھروالوں کے دوچار نمبرہی موجود ہوں مگر موبائل کی نمائش ضرورکرنا ہے۔کیونکہ اب تو کپڑوں کے مقابلے گزرے زمانے کی باتیں ہو چکی ہیں۔ایک زمانہ تھا کہ صرف تین ہزار روپے والا موبائل ہی زیرِ استعمال رہتا تھا ۔اس وقت پچیس سال پہلے وہ سٹیٹس سمبل تھا کیونکہ اور کوئی موبائل اس کے مقابلے میں تھاہی نہیں۔جس کے پاس یہ موبائل ہوتا وہ بادشاہ ہوتا ۔پھر تھوڑا اور دو چار سال پیچھے جائیں یعنی آج سے لگ بھگ تیس سال پہلے تو ہر ایک کے پاس موبائل تھا بھی نہیں ۔بلکہ جو کال آتی اس کا خرچہ بھی کال سننے والے کو برداشت کرنا ہوتا ۔پھرفون بھی کس کا آنا تھا کوئی تھا ہی نہیں بہت زیادہ کم لوگوںکے پاس وائرلیس نما بڑا موبائل ہوتا تھا۔کسی کو کیا کہ موبائل سیٹ پر کال کرے اور وہ بھی تو ہر آئی ہوئی گھنٹی کو وصول نہیں کرتے تھے کہ خواہ مخواہ کا خرچہ اپنے سر لیں۔رنگ ایک بھی نہ کرو اور مفت میں دوسرے کی کالیں اٹینڈ کر کے خرچہ بڑھا لو۔ پھر ایک کال سننے کا خرچہ بھی تو بہت زیادہ تھا۔وہ زمانہ تھا کہ سم نہیں تھیں ۔ فون ڈیپارٹمنٹ سے آپ کو موبائل نمبر الاٹ ہو جاتاتھا ۔پھراس کا بل آپ بھرتے تھے۔ایک ہی کمپنی تھی او رسرکاری تھی۔پھر اس کے بعد میں نے تو انور خان مرحوم دوست سے سنا تھا کہ اب تو تار وا رکا سسٹم ختم ہو جائے گا او رفون کے محکمے کے جھنجھٹ سے نجات ملے گی۔کیونکہ انگلی کی پور جتنی سم آرہی ہے او رباہر ملک کی کمپنیاں ا س دوڑ میں حصہ لیں گی ۔مجھے یاد ہے کہ جاز کی سم بیس بائیس ہزار میں ملتی تھی۔جس کے پاس سم ہوتی وہ تو شہنشاہ ہوتا ۔ یقین نہیں آیا کہ اتنی سی چپ ہوگی اور اس میں سب کچھ ہوگا۔یہ بھلا کیسے ہوسکتا ہے۔اس پر غور کرتے تو دماغ فیل ہوجاتا ۔مگر پھر یہ نظارہ بھی دیکھا کہ مختلف کمپنیوں کی سمیں در آئیں۔کیونکہ اکنامکس کااصول ہے کہ جب دکان کے سامنے اسی طرح کی دوسری دکان کھلتی ہے تو ریٹ کم ہو جاتے ہیں پہلے موبائل بھاری بھرکم تھے پھر آہستہ آہستہ پتلے اور چھوٹے ہونے لگے ۔ وہاں موبائل کمپنیاں وجود میں آنے لگیں اور موبائل فون سیٹ کی قیمتیں گرنے لگیں ۔ سم کی کمپنیوں کی آپس میں کھینچا تانی شروع ہوگئی ۔اس حد تک کہ سرکاری سم والی موبائل سستی پڑتی تھی اس لئے اس سم کے حصول کے لئے راتوں سے لائنوں میں لوگ لگ کرصبح کھڑکی کھلنے کے انتظار میں وہیں اداروں کے باہرکھڑکیوں کے نیچے سو جاتے ۔پھر ایک زمانہ آج کاآیا کہ سڑ ک کنارے سٹال لگے ہیں اور وہی پچیس ہزار کی سم مفت میں بھی لیں تو کمپنی شکریہ اداکرتی ہے ۔پھر اب تو موبائل بھی ایسے آئے ہیں کہ جنھوں نے دنیا کو فتح کرلیا ہے۔