کیا پکائیں سمجھائے کوئی 

بس ٹماٹر اور ساتھ سبز مرچ پھراگر ہو تو دو ایک انڈے ڈال کر مکسچر بنا لیںکیونکہ سبزیاں بھی تو اب خرید سے باہر ہوتی جا رہی ہیں ۔چکن اگر زندہ لیں تو ایک دانہ معمولی سے وزن والا بھی آٹھ نو سو تک مل جاتا ہے ۔پھر گوشت کا تو کچھ نہ پوچھیں ہڈیوں سمیت آٹھ نو سو کا ہے اور ہڈیاں نہ ہوں تو جہاں موقع لگے قصاب اپنی مرضی کے ریٹ پر دیتا ہے۔ہماری زوجہ محترمہ نے رات کو کہا کہ اسی وقت ندرُو لے کر آ¶ ۔بڑے دنوں سے اس سبزی کے کھانے کو جی متلا رہا ہے۔ہم نے بائیک اٹھائی اور پھاٹک کی بڑی منڈی میں پہنچے مگر دور دور تک یہ پشتو میں جس کو برسنڈے کہتے ہیں نظر نہ آئے ۔ایک دکان پر شاید آخری آخری مال پڑا تھا اور وہ بھی دو کلو ہوں گے ۔مگر یہ ہندکو میں کہلائے جانے والے پہیں انتہائی باسی اور خراب حالت میں موجود تھے ۔اس سے کلو طلب کئے تو اس نے پتلے سوکھے سے ڈنڈیوں والے ترازو میں رکھ دیئے ۔میں نے کہا میرے لئے کیوں مصیبت ڈھونڈتے ہو بڑے اور موٹے والے ڈالو ۔ہماری گھر والی ہم پر حاوی ہے یہ نہ ہو تم یہیں رہ جا¶ او رہم گھر میں جا کر کھری کھری سن لیں۔دل میں کہا کیونکہ اس کے نانا سبزی فروش تھے۔گھنٹہ گھر کے نیچے رفیق سبزی فروش کی مشہور دکان تھی۔ خاتونِ خانہ کو سبزیوں کی بڑی اچھی پہچان ہے وہ چونکہ ہر سبزی سے کیڑے نکالتی ہے بلکہ سنڈیا ںنکالتی ہے تو یہ نہ ہو مجھے دوبارہ رات کے بارہ بجے اسی دکان پر واپس آنا پڑے۔ موٹے موٹے کچالو بالکل ملائی کی طرح ابال لیتی تھیں۔ مگر اب تو چائنا سے گوبھی اور لیموں اور کیا کیاکچھ سبزیوںکی دکانوں میںلدا ہوا ہے۔گوبھی سردیوں کی جنس ہے ۔اب تو سخت گرمیوں میں بھی دکانوں پر سجی ہوئی نظر آتی ہے۔زمانہ بہت فاسٹ ہو چکا ہے اگر گرمی والے علاقوں میں گوبھی اور دوسری اشیاءنہیں تو ٹھنڈے علاقوں سے ٹرکوں پرلاد کر شہر میں تقسیم ہو جاتی ہیں۔میں نے اپنے سبزی والے سے پوچھا کہ اس وقت بازار میںکون سی سبزی نہیں ۔اس نے کہا سردی ہو گرمی ہو ہر سبزی دستیاب ہے ۔سبزی لینے ہمیں جانا پڑتا ہے اگر بینگن لے آئے تو بچوں کی ماں کو وہ بھی پسند نہیں آئے کہ اس میں کیڑے ہیں اور یہ دیکھو یہ خراب ہیں ۔اب ہم سبزی تو نہیں بیچتے ظاہر میں دیکھتے ہیں کہ بینگن ٹھیک ٹھاک اور چمکتے ہوئے ہیں سو اٹھا لاتے ہیں ۔اب ان کے اندر ان کو کیڑے کلبلاتے ہوئے نظر آ جائیں تو ہم کیا کر سکتے ہیں۔اس وقت پھاٹک کی سبزی منڈی سے یہ بڑے بڑے ٹماٹر دیکھے تو معلوم ہوا کہ سو روپے کلو ہیں ۔سبزی کی ضرورت تو خیر ایک طرف رہی مگر ٹماٹروں کی گولائی اور تازگی اور چمک نے مجبور کر دیا ۔ پھر وہاں ہم نے بھی سخاوت دکھلائی کہ ایک کلو خرید ہی لئے۔ اتنی سی سبزی چار سو کی مل گئی جس میں تھوڑی ادرک تھوم کی دو گڈیاں اور ساتھ سبز مرچ بھی ڈلوا لی مگر پٹرول کا حساب گھر میں آکر کیا تو تین سو کا تو پٹرول لگا ہوگا کیونکہ اب ٹینکی میں تھوڑا سا باقی تھا۔ کسی نے نکال لیا ہوگا یا ہوا میں اڑ گیاہوگا ۔مگر وہ پٹرول غائب تھا ۔دوسرے دن ایک بندہ سوزوکی پک اپ میں ٹماٹر بیچ رہا تھا اس کے ٹماٹر دیکھے ۔ دل بڑا خوش ہوا او رگذشتہ رات کے ٹماٹر ہی بھول گئے ۔پوچھا تو معلوم ہوا کہ ساٹھ روپے میں دے رہا ہے ۔افسوس ہوا کہ اتنا دور جانے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ گوشت کا تو خیر ذکر ہی کیا کہ اس کو خریدنا چلو ہفتہ میں ایک آدھ دن ہو سکتا ہے اور چکن کے ریٹ دن کے وقت ہی تاروں سے باتیں کرتے ہیں۔پھر اس کے بارے میں دکاندار سے پوچھنا یوں ہے کہ کوئی دن کو تارے دکھلا دے ۔خراب اور مہنگی اور باسی سبزی اگر ملے تو بندہ گھر میں جا کر گھر والی سے باتیں کیوں نہ سنے ۔مگر آپ ہی کہئے کہ اس موقع پر بندہ کو کیا کرنا چاہئے۔سوچا ہے سبزی لینا ہو تو گھر والی کولے جاکر پھاٹک کی سبزی منڈی میں اتار دوں گا۔ خود ایک طرف کھڑے ہو کر اس گاہک اور دکاندار کے درمیان ہونے والی تکرار کا مزہ لو ںگا کیونکہ خواتین بھا¶ تا¶ میںکسی بھی دکاندار کو مصیبت میں مبتلا کر دیتی ہیں‘اکیلے ہوں تو دکاندار سے درخواست کرتے ہیں کہ دیکھو نقلی مہنگی اور سڑی چیز نہ دو ہمیں شناخت نہیں ہے ۔مجھے گھرمیں باتیں سننا پڑتی ہیں۔