باقیماندہ دس مہینوں کا کیا بنے گا؟

میں معروضی حقائق کے بارے میں لکھتے ہوئے احتیاط کا دامن ہمیشہ سے تھامے رکھتا ہوں تاہم اتفاق یا اختلاف ہر کسی کا بنیادی حق مانتا ہوں‘ یونیورسٹی ملازمین نے یقیناگزشتہ سال کے طویل احتجاج بلکہ جامعہ کی73 سالہ تاریخ میں ہونیوالی ہڑتالوں اور کاربندیوں کاریکارڈ اس لئے توڑ دیا کہ حالیہ نئے دور کا دھرنا احتجاج 7نومبر جبکہ مجموعی طور پر13 نومبر سے جاری رہا اور یونیورسٹی کے ڈیڑھ ارب خسارے والے بجٹ کی منظوری کے اگلے روز یعنی 61ویں دن ا دعائے خیر کیساتھ یونیورسٹی کے کانووکیشن ہال میں ممتاز عالم دین سابق صوبائی وزیر مولانا امان اللہ حقانی قائمقام وائس چانسلر پروفیسر محمد سلیم ہوید جبکہ اساتذہ اور غیر تدریسی احتجاجی ملازمین کے نمائندوں کی موجودگی میں اختتام کو پہنچا‘ تاہم میرا اپنا اندازہ یہ ہے کہ احتجاج ختم ہونیوالا اسلئے نہیں کہ تنخواہوں میں جس اضافے کا اعلان کیا گیا ہے وہ کسی بھی یونیورسٹی کے پاس نہیں بالخصوص پشاور یونیورسٹی جہاں پر ملازمین کی تعداد ہزاروں میں ہے جبکہ ماہانہ تنخواہ 20کروڑ اور پنشن10 کروڑ سے زائد ہے اس طرح دوسرے اخراجات کو چھوڑ کر صرف بجلی کاماہانہ بل اب لاکھوں میں نہیں کروڑوں میں آتا ہے دراصل یہ اضافہ کوئی دس یا20فیصد نہیں بلکہ اتنا بھاری بھر کم ہو کہ اس کی ماہانہ ادائیگی کیلئے صرف پشاور یونیورسٹی کو سالانہ60 کروڑ روپے سے زائد اضافی بجٹ کی ضرورت ہوگی‘ یونیورسٹی سینیٹ سے 7 مہینے بعد ڈیڑھ ارب روپے خسارے والے بجٹ کی منظوری کے بعد ملازمین کو نومبر اور دسمبر کی تنخواہیں مذکورہ35 اور30 فیصد اضافے کیساتھ مل جائیں گی مگر یہاںپر اس لئے ختم ہونے والی نہیں کہ ایک تو سال دو مہینے کا نہیں بلکہ بارہ مہینے کا ہوتا ہے اور دوسرا یہ کہ یکم جولائی سے اضافے کے جو بقایا جات واجب الادا ہیں ان کی ادائیگی تو یونیورسٹی کیلئے مشکل تو کیا بالکل ناممکن ہی نظر آتی ہے‘ باقی رہی وفاقی اور صوبائی گرانٹ کی بات تو میرے خیال صوبائی حکومت کی طرف سے مادر علمی کو حال ہی میں ملازمین کے طویل احتجاج اور انتظامیہ کے انتھک رابطوں کے بعد 9کروڑ روپے کی جو گرانٹ دی گئی ہے اس سے تو ایک مہینے کی پنشن کی ادائیگی ممکن ہو سکتی ہے لیکن جامعہ کا چلانا بالکل بھی محال ہے‘ اگرچہ وفاقی حکومت کی گرانٹ کے بارے میں اعلیٰ تعلیمی کمیشن کے توسط سے خیبرپختونخوا کی تمام سرکاری جامعات کو تحریری طورپر آگاہ کیا گیا ہے کہ چونکہ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد یونیورسٹیاں صوبوں کے پاس چلی گئی ہیں لہٰذا وفاقی حکومت سے کسی مالی معاونت‘ گرانٹ یعنی فنڈنگ کی توقع مت رکھیں جبکہ بقول جامعات صوبائی حکومت ان کے بارہا مطالبات کے باوجود اپنے سالانہ بجٹ میں یونیورسٹیوں یعنی اعلیٰ تعلیمی شعبے کیلئے بجٹ مختص ہی نہیں کرتی‘ جہاں تک ملازمین کی تنخواہوں میں بھاری بھرکم اضافے اور اس کی ادائیگی کیلئے پشاور یونیورسٹی جیسی پرانی جامعات کے ہاں مالی وسائل کے فقدان کا سوال ہے تو یہ اتنا مشکل بھی نہیں کہ سمجھ سے بالاتر ہو البتہ پرکھنے سمجھنے اور آگے بڑھنے کی ضرورت ہے بجٹ پارلیمنٹ میں گیا اور فنانس بل کی منظوری سے مذکورہ اضافہ ملازمین کا قانونی حق بن گیا لہٰذا کسی بھی قانونی حق سے محرومی کی صورت میں قانون کے پاس جانا پڑتا ہے مگر کیا کریں کہ ملازمین حضرات دو مہینے تو سڑک پر بیٹھ کر احتجاج کرسکتے ہیں لیکن اپنے قانونی حق کیلئے عدالت کا دروازہ کھٹکٹھانے سے گریزاں ہیں؟ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ مسئلہ دائمی طورپر کیسے حل ہوگا اور اضافے کیساتھ سال کے باقیماندہ دس مہینوں کی تنخواہوں کی ادائیگی کہاں سے اور کیسے ممکن ہوگی؟۔