مژدے پہ مژدہ

مژدے پہ مژدہ کو آپ دوسرے لفظوں میں یکے بعد دیگرے خوشخبری بھی کہہ سکتے ہیں‘ ابھی چند مہینے قبل وفاقی حکومت نے اعلیٰ تعلیمی کمیشن کے توسط سے جامعات کو مراسلہ ارسال کیا کہ چونکہ اٹھارہویں آئینی ترمیم کی رو سے جامعات یا اعلیٰ تعلیم اب صوبوں کے پاس چلی گئی ہے لہٰذا وفاقی حکومت فنڈنگ سے بری الذمہ ہوگی قاعدے ضابطے اور آئین کے مطابق تو وفاقی حکومت نے بالکل درست بات کہی مگر المیہ یہ ہے کہ بقول جامعات صوبائی حکومت اپنی اس آئینی ذمہ داری کونبھانے کیلئے کسی طور آمادہ نظر نہیں آتی‘ جامعات کا کہنا ہے کہ انہوں نے بارہا حکومت کے سامنے یہ مطالبہ رکھا کہ60 فیصد آپ کے ذمے جبکہ40 فیصد بجٹ کا بندوبست یونیورسٹیاں کریں گی مگر تاحال کوئی عمل درآمد دیکھنے میں نہیں آیا جہاں تک مژدے پہ مژدہ کی یا یکے بعد دیگرے خوشخبری کی بات ہے تو اس کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ قدیم درسگاہ جسے مادر عملی بھی کہا جاتا ہے کے ملازمین نے7نومبر سے کام کاج کو خیر باد کہتے ہوئے اس بھاری بھر کم اضافے کے حصول کیلئے احتجاج شروع کر دیا جس کا اعلان سابق پی ڈی ایم حکومت میں مالی سال 2023-24ءکے بجٹ میں کیا گیا تھا اس کار بندی یا تالہ بندی میں پشاور یونیورسٹی کی آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ یعنی شعبہ امتحانات کو بھی61 دن تک تالے لگے رہے‘ کروڑوں روپے نقصان اٹھانا پڑا‘ اس دگرگوں حالت میں پشاور یونیورسٹی کا بجٹ بھی پورے سات مہینے سینیٹ سے منظوری کا منتظر رہا کیونکہ حکومت تو سرپلس بجٹ کی بات کر رہی تھی جبکہ اوپر سے جامعہ کے بجٹ میں تقریباً دو ارب روپے خسارہ سامنے آیا اب خسارے کی وجوہات تو بالکل واضح ہیں مگر نہ جانے حکومت کی سمجھ کیوں نہیں آتیں یعنی یہ کہ بجٹ والا اضافہ کوئی پانچ دس یا بیس فیصد تو نہیں تھا بلکہ82.50 فیصد ہے جوکہ ظاہری بات ہے کہ یونیورسٹی کے بس سے بالکل بھی باہر ہے مگر اس کے باوجود بھی جامعہ کی سینیٹ سے خسارے والے بجٹ کی بادل نخواستہ منظوری کے بعد صوبائی محکمہ خزانہ نے پشاور یونیورسٹی کو مژدے والا مراسلہ ارسال کردیا کہ سینیٹ کے بجٹ سیشن میں یونیورسٹی نے 1850 ملین کا جو خسارہ ظاہر کیا ہے اسے پورا کرنے میں صوبائی حکومت سے کوئی توقع نہ رکھیں‘ دوسری طرف حالت یہ ہے کہ یہ محض پشاور یونیورسٹی کا المیہ نہیں بلکہ دوسری پرانی جامعات بھی ایسی ہی دگرگوں حالت سے گزر رہی ہیں لہٰذا یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ یونیورسٹی ملازمین کے احتجاج کا سلسلہ ختم ہونے والا نہیں کیونکہ اگر ایک یا دو مہینے تنخواہیں اور پنشن نئے بھاری اضافے کیساتھ دی جائیں تو سال کے آئندہ مہینوں میں ادائیگی کیسے ہوگی؟ اب ملازمین کا یہ موقف تو مسئلے کا حل نہیں کہ یہ یونیورسٹی انتظامیہ کی ذمہ داری ہے ان کا کام نہیں اب یہ بات بھی قدرے غور طلب بلکہ جواب طلب ہے کہ انتظامیہ کیا ہوتی ہے؟ اور ملازمین کیا ہوتے ہیں؟ اگر دھرنا احتجاج کے کرتا دھرتا کو انتظامیہ بٹھا کر کسی کو وائس چانسلر کسی کو رجسٹرار اور کسی کو ٹریژر بنا دیا جائے تو کیا یہ امر یقینی ہو جائے گا کہ وہ جاکر حکومت سے پیسے حاصل کرکے یونیورسٹی کو خسارے سے نکال کر چلنے کی سمت میں گامزن کردیں گے؟۔