جامعات کا کل آج کے آئینے میں

پورے ملک کے بارے میں رائے زنی سے توشاید قاصر ہوں لیکن خیبرپختونخوا کی پرانی جامعات گزشتہ کچھ عرصہ سے جس قدر مالی بدحالی کا سامنا کر رہی ہیں ایسے میں یہ کہنا ہرگز بے جا نہیں ہوگا کہ باری باری اقتدارمیں آنیوالے یہ بات شعوری طورپر دل سے کہہ رہے ہیں کہ تعلیم کے بغیر ترقی ممکن نہیں اوریہ کہ تعلیم ہی ترقی کی حقیقی بنیاد ہے‘ اگرچہ خیبرپختونخوا میں سب سے قدیم درسگاہ اسلامیہ کالج ہی ہے مگر وہ تو سال2008ءتک جامعہ پشاور کے ایک کالج کے طورپر خدمات انجام دیتا رہا‘ پشاور یونیورسٹی گومل ‘زرعی یونیورسٹی اور انجینئرنگ یونیورسٹی صوبے کی پرانی یونیورسٹیاں ہیں ‘ہزارہ یونیورسٹی اور ویمن یونیورسٹی پشاور کا نمبر اس کے بعد آتا ہے‘ ویسے تو صوبے میں گزشتہ دو ڈھائی عشرے کے دوران سیاسی سخاوت کاری کے سبب یونیورسٹیوں کی تعداد تین درجن کے قریب پہنچ چکی ہے جن میں چند ایک پروفیشنل کیمپس بھی شامل ہیں تاہم جنرل یونیورسٹیوں میں بڑی یونیورسٹی جامعہ پشاور ہی ہے‘ یہ حقیقت اپنی جگہ کہ اب وہ پورے صوبے بشمول سابقہ فاٹا کی اکلوتی یونیورسٹی نہیں رہی تاہم ملازمین کی تعداد اور اخراجات میں سرفہرست ہے ایک وقت تھا کہ پورے صوبے کے150 سے زائد ڈگری کالجز کے بیچلر اور ماسٹر امتحانات پشاوریونیورسٹی کے زیر اہتمام تھے‘ بیچلر امتحان میں امیدواروں کی تعداد ایک لاکھ کے قریب ہوا کرتی تھی جبکہ ماسٹر امتحان میں بھی 30ہزار سے زائد ریگولر اور پرائیویٹ امیدوار شریک ہوا کرتے تھے جبکہ اب یہ تعداد بالترتیب دس بارہ ہزار اور ایم اے‘ ایم ایس سی کی تو سینکڑوں رہ گئی ہے‘ اسی طرح یونیورسٹی بھی سکڑ کر کیمپس کے روڈ نمبر2 تک محدود ہوگئی مگر غور طلب امر یہ ہے کہ دوعشرے قبل جب جامعہ پشاور پورے صوبے کی یونیورسٹی تھی تو ملازمین کتنے تھے اور اس وقت یہ تعداد کتنی ہے؟ یہ حساب کتاب اور احتساب ہر کسی کی نظروں سے اوجھل ہے پشاور یونیورسٹی نے رواں مالی سال کیلئے پانچ ارب روپے سے زائد جو بجٹ تیار کیا ہے اس میں اپنے ذرائع سے ہونیوالی آمدنی کا اندازہ بمشکل دو ارب لگایا گیا ہے جبکہ1850 ملین سے زائد خسارہ ہے اب وفاقی حکومت نے تو یہ کہہ کر اپنے آپ کو بری الذمہ کردیا کہ یونیورسٹیاں اب صوبوں کے پاس ہیں جبکہ صوبائی حکومت نے یونیورسٹی کو تحریری طورپر آگاہ کر دیا کہ دوبلین خسارے کا پورا کرنا یونیورسٹی کی ذمہ داری ہے یعنی یہ کہ حکومت کا اس سے کوئی لینا دینا نہیںبلکہ یونیورسٹی آمدنی یا اخراجات کیلئے اپنے وسائل پیدا کرے‘ ادھر یونیورسٹی نے صوبائی حکومت کی قدرے گرانٹ ملا کر نہایت مشکل سے اپنے نان ٹیچنگ اور ٹیچنگ سٹاف کو بشمول ایڈمنسٹریٹو نومبر اور دسمبر کی تنخواہیں قسط وار یا مرحلہ وار طریق پر35 اور30 فیصد اضافے کیساتھ دیدی ہیں لیکن پنشنرز کا مسئلہ جوں کا توں ہے کیونکہ پنشن میں بھی17.50 فیصد اضافے کی ادائیگی واجب الادا ہے یہ تو گزشتہ سال کے آخری دو مہینوں کی ادائیگی تھی جس کیلئے ملازمین نے دو مہینے سڑک پر بھی گزار دیئے لیکن سال2024ءکے پورے بارہ مہینے تو ابھی باقی ہیں‘ وفاقی حکومت نے تو آئینی طورپر اپنے آپ کو جامعات چلانے سے لاتعلق کر دیا مگر سوال یہ ہے کہ صوبائی حکومت اپنی آئینی ذمہ داری کا سامنا کرنے سے کیوں کترا رہی ہے؟۔