مسائل اور بھی ہیں مگر اوجھل

مادر علمی کے ملازمین کے تمام مسائل کا حل اگر ممکن بھی ہو جائے‘ یعنی ترقی سے محروم اساتذہ ترقی پائیں‘ عرصہ سے پی ایچ ڈی ہولڈر ہونے کے باوجود80 سے زائد میل اور فی میل ٹیچرز لیکچرر شپ سے اسسٹنٹ پروفیسر بن جائیں‘ تدریسی عمل یا کلاسز کا دورانیہ اساتذہ کی مرضی اور سہولیات کے مطابق مقرر ہو جائے ‘ٹیچنگ اور نان ٹیچنگ سٹاف اور ایڈمنسٹریٹو افسران کو جو کمی درپیش ہے وہ بھی پوری ہو سکے اور ساتھ ہی حالیہ61روزہ تالہ بندی کے دوران جو مطالبات تسلسل کیساتھ سامنے آئے ہیں وہ بھی تمام تر پورے ہو جائیں تو کیا اسکے علاوہ اور کوئی مسئلہ نہیں رہے گا؟ بلاشبہ کہ اسکے علاوہ بھی بہت سارے بلکہ بہت ضروری مسائل درپیش ہیں‘ اب یہ الگ بات ہے کہ وہ اساتذہ غیر تدریسی ملازمین حتیٰ کہ انتظامیہ سے بھی یکسر اوجھل ہیں ‘جواب طلب امر یہ ہے کہ ان تمام ملازمین میں سے جو کہ میرے نزدیک ہر ایک مادر علمی کا سٹیک ہولڈر ہے ‘اگر کسی نے بھی عرصہ20سال تک بحیثیت ملازم یونیورسٹی میں گزار دیئے ہوں تو مہربانی کرکے احساس ذمہ داری کیساتھ یونیورسٹی کے موجودہ ابتر ماحول کا جائزہ لیکر خود احتسابی کیساتھ رائے قائم کرلیں کہ آیا یونیورسٹی ماحول ایسا ہوتا ہے؟ یہ جاننا نہایت ضروری ہے کہ مادر علمی کا جنرل بس سٹینڈ میں تبدیل ہوئے‘ شور‘ دھوئیں‘ تیز رفتاری پریشرہارن ہر قسم کی ہلڑ بازی ‘صفائی کی ابتر حالت‘ ہر اسیت اور ٹک ٹاکر سمیت سیاسی جماعتوں کی ٹوپیوں‘ ناقص فوڈ آئٹمز اور من مانی قیمتوں کے بارے میں سٹیک ہولڈروں کا جواب کیا ہے؟ یونیورسٹی کا ماحول جو کہ آج سے دو عشرے قبل تھا دوبارہ قائم کرکے جامعہ پشاور کو حقیقی معنوں میں ایک درسگاہ کی حیثیت کون دلائے گا؟ کیا یہ مسائل ان کی ہڑتالوں‘ تالہ بندیوں اور نعرہ بازیوں کے ذریعے ان کے تمام مطالبات تسلیم ہونے سے حل ہو جائینگے؟ میری مخلصانہ رائے تو یہ ہے کہ بالکل بھی نہیں‘ جب تک ہر ملازم اپنے آپ کو اس کاذمہ دار نہ سمجھے اور جب تک ہر ایک اپنے حصے کا کردار ادا نہ کرے‘ لہٰذا اب بھی وقت ہے کہ ہر ٹیچر ہر کلرک ‘ہر افسر اور سب سے بڑھ کر جامعہ کا سربراہ آگے آئیں اور جن مسائل‘ عدم ذمہ داری اور بڑھتی ہوئی ابتری کی ان سطور میں بار بار نشاندہی کی گئی ہے اس کا قلع قمع کریں‘ محض ترقیوں‘ تنخواہوں‘ مراعات‘ ہفتے میں دو چھٹیوں اور یونین بازی سے مادر علمی کی شان رفتہ کی بحالی میں کوئی مدد حاصل نہیں ہوگی مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ آج سے دو ڈھائی عشرے قبل تک جبکہ پورے صوبے میں صرف چار یونیورسٹیاں تھیں پورے صوبے بشمول قبائلی علاقہ جات کے200 کے قریب کالجز جامعہ پشاور سے ملحقہ اور منسلک تھے اس کے مقابلے میں موجودہ یونیورسٹی جو کہ کیمپس کے روڈ نمبر2تک محدود ہو کر رہ گئی ہے کہ ملازمین کی تعداد کہیں زیادہ جبکہ انتظام و انصرام اور حالت اس وقت سے کہیں ابتر ہے‘ اگر اپنے حصے کا کام احساس ذمہ داری کیساتھ کیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ پشاور یونیورسٹی میں جو کہ اس وقت ہر حوالے سے بدترین حالت سے دوچار ہے‘ ایک حقیقی تعلیمی ماحول قائم نہ ہو سکے۔