کوئی سے اس بڑھ کر عبادت نہیں ہے


رمضان المبارک کی ان با برکت گھڑیوں میں دن رات قدرے مختلف ٹائم ٹیبل کے ساتھ گزر رہے ہیں‘ وہ جو ایک نہ ختم ہونےوالی روز مرہ مصروفیات تھیں‘ اگر یکسر ختم نہ بھی ہوں توبھی ایک نمایاں فرق آ چکا ہے اب لکھنے پڑھنے کےلئے زیادہ وقت مل جاتا ہے‘ البتہ رمضان المبارک سے پہلے کے تین چار ہفتے تو ادبی اور ثقافتی تقریبات کا عالم یہ تھا کہ ایک ہی دن میں تین تین اور چار چار تقریبات بھی ہوئیں‘ جس دن آر ایم آئی کے ادبی میلہ میں ڈاکٹر طارق مفتی کی بہت ہی عمدہ خود نوشت ”کلام ناتمام“ کی تقریب پذیرائی تھی اسی دن صبح اکادمی ادبیات پاکستان کے باب ِ پشاور میں خواتین کے عالمی دن کے حوالے سے تقریب تھی کتاب کی تقریب پذیرائی کے بعد رحمان میڈکل کالج میں ہی افسر افغان کی عمدہ نظامت میں محدود مشاعرہ تھا جس میں میرے ساتھ بخت زادہ دانش اور منیر بونیرے بھی تھے‘ وہاں سے نکل کر برینز انسٹی ٹیوٹ پہنچا جہاں ظفر اللہ خان نے ڈیجیٹل میلہ کا ڈول ڈالا ہوا تھا جس میں پشاور کے سنہری دنوں کو یاد کیا جا رہا تھا‘ پشاور کے ان نابغہ سپوتوں کا ذکر بھی تھا جنہوں نے مختلف شعبوں میں پشاور کا نام روشن کیا ہے اور پھر اس پر بھی سر جوڑنا تھا کہ ہم کس طرح پشاور کی عظمت رفتہ کو بحال کر پائیں گے‘ مجھے یاد ہے کہ ماضی میں بھی اس طرح کی کئی ایک تنظیمیں بہت دلسوزی کے ساتھ اس موضوع کو میز پر رکھتی رہی ہیں‘ خصوصاََ شریف فاروق مرحوم کا تو یہ ایک خواب تھا لیکن اب یہ جوسائنسی اور برقی توانائی کے ساتھ پشاور کی از سر نو دریافت کا بیڑا طفراللہ خان نے اٹھایا ہے برینز کے اس برقی میلے کے بعد مجھے ایک نجی چینل”کے ٹو“ کے عید شو میں شرکت کرنا تھی‘ بیشتر چینلز اپنے عید شو رمضان سے پہلے اس لئے ریکارڈ کر لیتے ہیں ٹیلی ویژن کا میڈیم ’میک بلیو‘ یعنی یقین کروانے کا میڈیم ہے اور تین تقریبات میں شرکت کے بعد کچھ دل ہی جانتا ہے کہ اس عیدشو میں اپنے ناظرین کویہ باور کرانا کہ آج عید کا دن ہے کتنا کٹھن مرحلہ رہا ہو گا‘ پھر وہاں سے نصف شب کے بعد یہ سوچ کر گھر لوٹنا کہ کل پھر مسلسل تین تقریبات ہیں‘ پہلے میں بہت ہی محبت کرنے والے دوست آغوش کے مدارالمہام ظہور محمد کی دعوت پر الخدمت فاو¿نڈیشن کے مرکز آغوش پہنچا جہاں یتیم بچوں کی تعلیم اور تربیت کا بہت اعلیٰ انتظام ہے اور جس ادارہ کے پروردہ کئی ایک بچے نمایاں پوزیشن کے 
ساتھ کامیاب ہو کر اب طب اور انجینئرنگ کے پیشہ ورانہ کالجوں میں پڑھ رہے ہیں‘ وہاں برخوردار عدنان رضا نے ربع صدی سے مسلسل اپنے لوگوں اور بیرون ملک مظلوم اور دور ابتلا سے گزرنے والے دکھی انسانوں کے زخموں پر ٹھنڈے پھاہے رکھنے والے فلاحی ادارے الخدمت فاو¿نڈیشن کی ایک بہت اچھی دستاویزی فلم دکھائی اور کمال مہارت سے بریفنگ دی‘ پھر وہاں سے مجھے خانہ فرہنگ ایران جانا تھا‘ جہاں اردو فارسی اور ہندکو زبان کی شاعرہ‘ افسانہ و سفر نامہ نگار قدسیہ قدسی کی کتاب کی رونمائی ہو رہی تھی‘ یہ بہت اہم کتاب امیر المومنین حضرت علی المرتضی ؓ کے خطبات مکتوبات اور احکام و مواعظ پر مبنی حضرت آیت اللہ سید رضی اور حضرت مفتی 
جعفر حسین کی معروف تالیف کا ہند کو ترجمہ ہے‘ یہ ایک عمدہ تقریب تھی یہاں خانہ فرہنگ ایران کے نئے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر حسین چاقمی سے بھی خوشگوار ملاقات ہوئی اور ہم نے ایک پرانے ڈی جی آقائے رئیس السادات کو خوب یاد کیا‘ جس کے بعد الخدمت فاو¿نڈیشن خیبر پختونخوا کی ایک بہت اہم سالانہ تقریب تھی‘ اس تقریب کی نظامت بھی میرے ذمہ تھی یہ تقریب الخدمت فاو¿نڈیشن کے بہت سے فلاحی منصوبوں کےلئے مخیر حضرات سے تعاون کی اپیل کے حوالے سے تھی‘ الخدمت فاو¿نڈیشن پاکستان کے صدر ہنستے مسکراتے روشن چہرے والے ڈاکٹر حفیظ الرحمن بلا کے خطیب ہیں اور انہوں نے الخدمت کے رفاعی کاموں کا تفصیل سے ذکر کرتے ہوئے یہ بھی کہہ دیا کہ ہماری توقع ہے کہ آج شب پشاور اور خیبر پختونخوا کے انسان دوست مخیر حضرات 25 کروڑ کے عطیات دیں گے‘ گزشتہ برس اسی ہال میں گھنٹہ بھر میں 20 کروڑ کے عطیات اکٹھے ہوئے تھے‘ مجھے یہ ٹارگٹ قدرے مشکل 
لگ رہا تھا مگر پشاور کے محبتی دوست الخدمت فاو¿نڈیشن کی بے کراں خدمات سے آ گاہ تھے ایک مزے کی بات یہ بھی ہوئی کہ جب صوبائی نائب صدر حافظ حمید اللہ عطیات کے حوالے سے حاضرین محفل کے بھرے ہوئے فارم سے ان کے نام اور عطیہ کی گئی رقم کا اعلان کر رہے تھے تو انہوں نے ایک فارم سے میرا نام اور عطیہ بھی اناو¿نس کیا اور یہ بھی کہا کہ وہ اس وقت نظامت بھی کر رہے ہیں‘ میں چونکہ سٹیج پر تھا اس لئے میرے پاس کوئی فارم تھا ہی نہیں اس لئے مجھے بہت حیرانی ہوئی‘ مگر جلد ہی فارم دیکھ کر یہ عقدہ بھی حل ہو گیا کہ یہ عطیہ در اصل ہال میں موجود رفعت علی سیّد نے دیا تھا اور فارم میں مسزناصر علی سید لکھا تھا جسے حافظ حمید اللہ کی محبت نے میرے نام سے پڑھ لیا‘ لیکن اس وقت بہت خوشی ہوئی جب بڑی سکرین پر عطیات موصول ہونے کے حوالے سے برقی ہندسے بہت تیزی سے بدلتے گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے ریکارڈ ٹائم میں30 کروڑ کے عطیات اکٹھے ہو گئے یہ مخیر حضرات کا اس بے پناہ خدمات انجام دینے والے ایک بڑے ادارہ پر اعتماد کا بین ثبوت تھا‘ الخدمت فاو¿نڈیشن کے حوالے سے عمومی تاثر یہی ہے کہ ان کی خدمات قدرتی آفات اور صحت کے شعبوں تک محدود ہیں‘ یا پھر آغوش جیسے اداروں کی عمدہ کارکردگی کی وجہ سے کفالت یتامی کو بھی شامل کر لیا جاتا ہے‘ لیکن بہت کم لوگوں کو علم ہو گا کہ الخدمت فاو¿نڈیشن کے زیر انتظام سات شعبوں میں بہت بڑے پیمانے پر کام ہو رہا ہے‘ قدرتی آفات‘ صحت‘ تعلیم‘ کفایت یتامی‘ صاف پانی کی فراہمی‘ مواخات یعنی چھوٹے کاروباری قرضے اور کئی ایک حوالوں سے سماجی خدمات جن میں رمضان میں فوڈ پیکیجز‘ ونٹر پیکیجز‘ وہیل چیئرز‘ جہیز پیکیجز‘ اقلیتی برادری کے لئے ان کے تہواروں پر پیکیجزاور منشیات کے عادی نوجوانوں کے علاج و بحالی مراکز جب کہ ”بنو قابل“ کے نام سے بھی ایک لاکھ نوجوانوں کی کامرس‘ آئی ٹی اور امیزان وغیرہ میں مفت کورسز کے پروگرام کا افتتاح ہو چکا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس کٹھور دور میں الخدمت فاﺅنڈیشن کی بے لوث خدمات کی حوصلہ افزائی کےلئے انکے ساتھ بطور ڈونر یا رضا کار جڑنے سے بڑی تسکین شاید ہی کوئی اور ہو‘ محمد حسین فطرت نے درست کہا ہے
اگر خدمت خلق کی ہو سعادت
کوئی اس سے بڑھ کر عبادت نہیں ہے