قائد اعظم اور پشاور کے طلباء

قیا م پا کستان سے پہلے اور قیا م پا کستان کے بعد با بائے قوم قائد اعظم محمد علی جنا ح نے متعد د بار پشاور کے دورے کئے ان دوروں میں اسلامیہ کالج پشاور اور ایڈ ورڈ ز کا لج پشاور میں طلباءسے براہ راست حطاب بھی کیا اور مختلف مواقع پر طلباءکو خصو صی پیغا مات پر مبنی خطوط بھی بھیجے‘ بابائے قوم کے سوانح نگا روں نے ان کی تقاریر کا جو گرانما یہ ریکارڈ تلا ش کیا ہے اس میں 1936ءاور 1948ءکے درمیاں 12سال کی سیا سی سرگرمیوں میں بنگا ل سے لے کر بلو چستان اور ممبی سے لے کر پشاور تک 45 مقا مات پر قائد اعظم نے طلباءسے خطاب کیا ہے ‘علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں آپ کے خطاب سے ہند وستان کی سیا سی فضا میں بھونچال آیا تھا اسی طرح دیال سنگھ لا ہور میں آپ نے طلباءسے جو خطاب کیا وہ بھی دیر تک اخبارات میں زیر بحث رہا‘ اس تقریر میں با بائے قوم نے کا نگریس نواز اخبارات اور رپورٹروں کو خبر دار کیا تھا اپنی سیا سی مہم کے تسلسل میں قائد اعظم نے اسلامیہ کا لج پشاور کے طلباءکے نا م ایک تحریر ی پیغام بھیجا اس میں با بائے قوم نے لکھا ” ستمبر 1936ءمیں مجھے پشاور کے دورے کا زرین موقع ملا تھا ‘اس وقت میں آپ کے موقر ادارے میں آیا اور طلباءسے خطاب کیا تھا ‘میں واپسی پر یہ تاثر لے کر آیا کہ آپ کا تعلیمی ادارہ ایک ممتاز حیثیت کا حا مل ہے آپ لو گوں نے مجھ سے رہنما ئی مانگی ہے میرا مشورہ یہ ہے کہ آپ کو دیا نت داری اور عزت نفس کا اعلیٰ معیار قائم رکھنا ہوگا اور جہاں تک تمہارا بس چلے اپنے عوام کی خد مت انتھک اور بے لوث طریقہ سے کریں ، ہر میدان میں کو شش کریں کہ ہمارے لوگ اپنے آپ پر یقین اور بھروسہ رکھیں‘خود کفالت اور خود انحصاری کو اپنا شعار بنائیں‘ اسلا م ہم سے تقاضا کر تا ہے کہ ہم اپنا فرض منصبی ایمانداری کےساتھ نبھا ئیں‘ کا مل اتحا د کے ساتھ یک زبان ہو کر ایک پر چم تلے مضبوطی اور طا قت سے آگے بڑھیں کامیا بی ہمارے قدم چومے گی میرے نو جواں دوستو ‘مجھے تم پر فخر ہے “ 12اپریل 1948ءکو قائد اعظم محمد علی جنا ح نے اسلا میہ کالج پشاور کے طلباءسے خطاب کر تے ہوئے اس تعلیمی ادارے کا اولین نا م زبان پر لا یا اور کہا ”مجھے آج اس عظیم دارا لعلوم کا دورہ کر کے اور اس درس گاہ کے طلباءسے مخا طب ہو کر بیحد خوشی ہوئی ہے اس موقع پر میں قیام پاکستان کی جدوجہد میں طلباءکے تعاون اور خصوصی طور پر پشاور کے طلباءکی بے مثال قربانیوں کا ذکر کئے بغیر نہیں رہ سکتا ‘گذشتہ سال تمہارے صو بے کے عوام نے تاریخی ریفرنڈم کے ذریعے پا کستان کے حق میں جو فیصلہ دیا اس کا سہرا طلباءکی جدوجہد کے سر ہے ‘میں فخریہ طور پر کہتا ہوں کہ تمہارے صوبے کے عوام نے آزادی کی تحریک اور قیام پاکستان کی جدو جہد میں نما یا ں کر دار ادا کیا ہے “ آگے جا کر با بائے قوم نے سپاسنامہ کا جواب دیتے ہوئے کہا ” آپ لوگوں نے خیبر یونیورسٹی کا مطا لبہ کیا ہے میرے دل میں اس بات سے بڑھ کر کوئی خوا ہش نہیں کہ پشاور جیسی جگہ پر علم کا ایسا ایک مر کز قائم ہو جس کی روشنی پورے وسطی ایشیا ءکو منور کردے اور مشرق وسطیٰ تک اس کی کرنیں پھیل جائیں اگر آپ لو گوں نے درست سمت میں جدو جہد کی تو مجھے یقین ہے کہ تمہاری توقعات سے بھی پہلے یہاں یو نیور سٹی قائم ہو جائےگی “ اس موقع پر با بائے قوم نے اپنی جائیداد کا ایک حصہ اسلا میہ کا لج کے لئے وقف کر دیا‘ 18اپریل 1948ءکو ایڈ ورڈ ز کا لج پشاور میں طلباءسے خطاب کر تے ہوئے با بائے قوم نے فرمایا ” جیسا کہ ابھی آپ نے ذکر کیا ہے میں اس تعلیمی ادارے میں اجنبی نہیں ہوں ، ستمبر 1936ءمیں مجھے یہاں آنے اور طلباءسے خطا ب کرنے کا شرف حا صل ہو اتھا‘ میں آپ کو بتا نا چاہتا ہوں کہ ہم ہر روز کچھ نہ کچھ سیکھتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں ‘میں آپ کی تو جہ چاہتا ہوں کہ گذرے کل اور آج میں بڑا فرق ہے‘ آج آپ اپنے آزاد ملک کے شہری ہیں ‘آج یہاں آپ کی اپنی حکومت ہے‘ جہاں آپ کو غلطی نظر آئے اپنی حکومت کی اصلا ح کے لئے مثبت تنقید میں ہچکچاہٹ محسوس نہ کریں ‘اس طرح آپکی رائے نظم و نسق کو بہتر کرنے میں مدد گار ثا بت ہو گی “ بابائے قوم کے ارشادات آج بھی نوجوانوں کے لئے مشعل راہ کی حیثیت رکھتے ہیں ‘ پشاور کے ساتھ با بائے قوم کی محبت ہمارے لئے باعث افتخار ہے ۔