بے مثال شہر پشاور 

ہمارے دوست خلیل احمد کو حیرت ہوئی کہ قصہ خوا نی بازار میں ژا لہ باری کی ویڈیو وائرل ہوئی تو 24گھنٹوں میں 19لا کھ لو گوں نے اس کو دیکھا مجھے اس بات پر حیرت با لکل بھی نہیں ہوئی ‘قصہ خوا نی شہر پشاور کا وہ مقام ہے جہاں ڈھکی دال گراں اور ڈھکی نعلبندی واقع ہیں ‘دونوں کو ملا کر اس کو ڈھکی کہا جا تا تھا اور دوسری صدی قبل مسیح تک شہر کی آبادی ڈھکی ، گنج اور سردچاہ میں تھی پشاور کے قدیم نقشوں میں یہ تینوں مقامات نما یاں نظر آتے ہیں ، یہ وہ دور تھا جب دریا ئے باڑہ ڈھکی سے گذر تا تھا ، مو جو دہ قصہ خوا نی دریا کے دوکناروں پر کاروانوں کی آما جگاہ ہوا کر تا تھا‘ وسطی ایشیا سے ہند وستان جا نے والے کاروان یہاں ٹھہر تے تھے تو قصے کہانیاں اور داستانیں سنا نے والے کار وانوں کو تفریح اور شغل فراہم کر تے تھے جب دریا ئے باڑہ نے اپنا رخ تبدیل کیا کارواں سرائے رفتہ رفتہ دکا نوں ، ہو ٹلوں اور پلا زوں کی شکل اختیار کرنے لگے تو اس بازار کا نا م پرانی روا یت کی نسبت سے قصہ خوا نی پڑ گیا‘ اس کی کہا نی بجا ئے خود ایک داستان ہے ، فصیل شہر بھی ایک داستان ہے‘ قلعہ بالا حصار بھی داستان ہے‘ یہ بدھ مت کے دور کی یاد گاریں ہیں کشان خاندان کو فن تعمیر کے لحا ظ سے ممتاز مقام حا صل
 ہے اُس دور میں تعمیرات اور دیگر فنون لطیفہ کے ساتھ مجسمہ سازی کو بھی فروغ ملا ، گندھا را کی منفرد تہذیب پشکلا و تی میں پرواں چڑھی ‘چینی سیا ح زوان زانگ نے ساتویں صدی میںفصیل کے با ہر ایک قلعے کا ذکر کیا ہے گویا اُس وقت فصیل کے کچھ حصے مو جو د تھے‘ قلعہ بالا حصار بھی اپنی ابتدائی شکل میں مو جود تھا‘ سترہویں صدی میں مہا بت خان مسجد کی تعمیر ہوئی جو با لا حصار کے برابر اہمیت رکھتی ہے‘ اس کو بر صغیر پا ک و ہند کی خو ب صورت ترین مسجدوں میں شمار کیا جاتا ہے‘ 1610اور 1630کے درمیانی عرصے میں تعمیراتی سامان بھی دستیاب نہیں تھے‘ اس کے باو جود عا لیشان مسجد تعمیر ہوئی جو مغل طرز تعمیر کا شہ کا ر ہے میں نے اپنے دوست کو بتا یا کہ پشاور شہر کی تاریخ پڑھو گے تو 19لا کھ نا ظرین کی آمد پر تمہیں حیرت نہیں ہو گی ، پشاور وہ شہر ہے جو پنجا ب کے حکمران مہا را جہ رنجیت سنگھ کا پسندیدہ شہر تھا ، افغانستان کے حکمران احمد شاہ ابدالی اس شہر کے عاشق تھے ‘احمد شاہ ابد الی نے 1747ءمیں پشاور کو اپنی قلمرو میں شامل کیا ، فصیل شہر کو وسعت دی ، قلعہ بالا حصار کو تو سیع دی اور اس کو اپنا تخت گاہ بنا یا ، 1823ءمیں مہا را جہ رنجیت سنگھ نے کا بل اور قند ہار تک کا علا قہ فتح کیا تو قلعہ با لا حصار کو گرا کر دوبار ہ تعمیر کیا ‘حیرت اور تعجب کی بات یہ ہے کہ ایک اطالوی سپہ سالا ر ایوی ٹیبل یعنی ابو طبیلہ پشاور کے عشق میں گرفتار ہوا ، اُس نے فصیل شہر کے اندرگور گٹھڑی میں عا لیشان عما رت تعمیر کرائی‘ اُس نے یو رپ کے طرز پر سیوریج لائن بچھا ئی 1837ءسے 1843ءتک وہ سکھوں کی عملداری میں پشاور کا منتظم اعلیٰ یعنی ایڈ منسٹریٹر رہا وہ بڑا ظالم تھا اُس کے ظلم کی داستانیں مشہور ہیں ‘1849ءمیں مہا را جہ رنجیت سنگھ کا انتقال ہوا تو ان کی سلطنت سکڑ تی گئی انگریزوں نے پشاور کو ایسٹ انڈیا کمپنی کی عملداری میں شامل کیا‘ 1868ءمیں بر طانوی ہند کی فو ج پشاور آئی تو اس کو یہاں علی مردان کی حویلی ، گورگٹھڑی اور قلعہ بالا حصار کی صورت میں تیار انفرا سٹرکچر مل گیا ، انگریزوں نے قلعہ بالا حصارکو دوسری بار مسمار کر کے دوبارہ تعمیر کیا ، مو جود ہ قلعہ انگریزوں کا تعمیر کیا ہوا ہے تا ہم ما ہرین کہتے ہیں کہ انگریزوں نے سینکڑوں سال پرانے نقشے کو بر قرار رکھ کر اس میں مفید اضا فے کئے‘ قلعہ با لا حصار کے نواح میں لیڈی ریڈنگ ہسپتال بھی انگریزوں کی یا د گار ہے ‘العرض پشاور بے مثال شہر ہے اس کی ویڈیو کو اگر 19لا کھ نا ظرین نے پسند کیا تو تعجب ، حیرت اور اچھنبے کی کوئی بات نہیں ۔