اور اب پھر ترامیم

تعلیمی امور بالخصوص جامعات کی حالت زار کی خبر رکھنے والے لوگوں کا کہنا ہے کہ کیا دوسرے تعلیمی مسائل حل ہوگئے؟ جامعات مالی اور انتظامی ابتری کی دلدل سے نکل آئیں کہ ایک بار پھر تمام تر ضروری امور کو ایک طرف رکھ کر ارباب اختیار ترامیم کے پیچھے پڑ گئے؟ ایک سوال یہ بھی ہے کہ1974ء کے ایکٹ میں کیا خرابی تھی؟ بعدازاں 2012ء کے ایکٹ میں کیوں ترامیم کی گئیں؟ اور اب ایک بار پھر اسی حکومت کو آخر کیا ضرورت پڑ گئی کہ اپنے ہی لاگو کردہ2016ء ماڈل ایکٹ میں ترامیم کرنے جارہی ہے؟ درحقیقت مسئلہ ایکٹ یا قواعدو ضوابط میں ترامیم کا نہیں بلکہ اصل اور بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ تعلیمی بجٹ کتنا ہے؟بے تحاشا مہنگائی اور ہر سال تنخواہوں اور پنشن میں ہونے والے اضافے کی ادائیگی کے لئے جامعات کو کتنی گرانٹ فراہم کی گئی ہے؟ اگر یونیورسٹیاں یا اعلیٰ تعلیم اب صوبوں کے پاس ہو تو پھر اعلیٰ تعلیمی کمیشن اسلام آباد کی چھتری کیونکر قرار رکھی جاتی ہے؟ ان تعلیمی وظائف کی تعداد کتنی ہے جو ہونہار مستحق طلباء اور طالبات کو فراہم کئے جاتے ہیں؟ آیا یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں کہ ملک کی قدیم اور صوبے کی سب سے بڑی درسگاہ تنخواہوں کی ادائیگی مالیاتی اداروں سے قرضے لیکر کر رہی ہے جبکہ پنشنرز بجٹ والے17.50 فیصد اضافے سے 10مہینے گزرنے کے باوجود محروم اور پنشن کے حصول میں ٹھوکریں کھانے سے دوچار ہیں؟ ریاستی حلقوں کا کہنا ہے کہ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں تحقیق کے فروغ سے جامعات استحکام سے ہمکنار ہوں گی بلا شبہ مگر سوال یہ ہے کہ ریسرچ کو فروغ کیسے حاصل ہوگا؟ تعلیمی بجٹ میں تحقیق کیلئے کتنا حصہ مختص ہے جبکہ جدید تحقیق کیلئے ترقی یافتہ ممالک میں اپنے سکالرز کو بھجوانے کیلئے سکالر شپس پر کتنا پیسہ خرچ کیا جارہا ہے؟ کیا موجودہ ابتر مالی حالت میں ریاستی اداروں کا فرض نہیں بنتا کہ جامعات کے امور بالخصوص اخراجات کی کڑی نگرانی اور مکمل احتساب کو معمول بنائے؟ کیا یہ بات حکومت کے علم میں نہیں کہ یونیورسٹی کیا اور کیسی ہوتی ہے؟ اگر ہو تو پھر آکر ذرا قدیم درسگاہ کی موجودہ حالت کا مشاہدہ تو کرلیں جسے مادر علمی بھی کہا جاتا ہے مگر اس وقت مچھلی بازار اور جنرل بس سٹینڈ کا منظر پیش کر رہی ہے‘ آیا ایسے ماحول میں نوجوان نسل کو تعلیم و تربیت دیتے ہوئے یہ توقع رکھی جا سکتی ہے کہ وہ کردار کے غازی بن کر ملک و قوم کا نام روشن کرے گی؟ پہلی بات تو یہ ہے کہ ترامیم نہیں بلکہ تعلیم پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے جہاں تک جامعات کی نام نہاد خود مختاری کا سوال ہے تو عرصہ ہوا کہ محض دفتری اوقات کار کی پاسداری میں اپنی مرضی‘ ہفتے میں بلاوجہ اور بلاضرورت دوچھٹیوں اور عیدین پر حکومتی اعلان کے برعکس اپنی مرضی کی تعطیلات تک محدود رہ گئی ہے‘ مادر علمی میں عرصہ ہوا کہ ٹیچنگ اور ایڈمن کیڈر دونوں کی30فیصد سے زائد آسامیاں خالی پڑی ہیں تنخواہیں قرض لیکر دی جاتی ہیں مگر گاڑیوں اور اخراجات میں کوئی کمی دیکھنے میں نہیں آئی‘ طلبہ تنظیموں کی سیاست بازی اور ناقابل استعمال ٹریفک اور سرپھرے نوجوان آؤٹ سائیڈروں کی ہلڑ بازی عروج پر اور تعلیمی ماحول بربادی سے ہمکنار ہو چکا ہے مگر پرسان حال کوئی نہیں؟ اگر ترامیم کرکے تعلیمی ترقی اور جامعات کی حالت میں بہتری ممکن ہو سکتی ہے تو اس سے بہتر کام تو کوئی اور ہوہی  نہیں سکتا مگر مسئلہ یہ نہیں بلکہ یہ ہے کہ تعلیم و تربیت تعلیم کے مقصد اور تعلیمی اداروں میں حقیقی تعلیمی ماحول قائم کرنے کیلئے احساس ذمہ داری جگانے اور اونر شپ کا جذبہ زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔اگر غیر ذمہ داری بدستور رہی تو یہ بات ذہن نشین کرنے کی ہے کہ مستقبل قریب میں یونیورسٹی کیمپس کا ماحول اس قدر تباہ ہو جائے گا کہ قدیم درسگاہ کو جامعہ کے نام سے یاد کرنا بھی باعث ندامت امر ہوگا‘ اگر کسی کی سوچ یہ ہو کہ سب کچھ خودبخود درست ہو جائے گا یہ ان کی بھول ہوگی۔