بجٹ 2025: اعدادوشمار سے آگے

مالیاتی پالیسی کسی بھی ملک کی میکرو اکنامک کا اہم بازو ہوتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اِسے حکومت براہ راست کنٹرول میں رکھتی ہے۔ مالیاتی پالیسی حکومتی اور ڈھانچہ جاتی اخراجات‘ عائد کردہ ٹیکسوں کی مقدار اور اقسام اور حکومتی قرضوں کی صورت میں ہوتی ہے۔ حکومت موجودہ اور سرمائے کے اخراجات کے ذریعے معاشی سرگرمی پر براہ راست اثر انداز ہوسکتی ہے۔ بالواسطہ یہ اثر سبسڈی‘ نجی شعبے کو منتقلی اور سرمایہ کاری کے فریم ورک کے اثرات کے ذریعے آتا ہے۔ مختلف تجربات کے ذریعے مالیاتی کھاتوں کے خسارے (محصولات سے زیادہ سرکاری اخراجات) کے نقصان دہ اثرات ظاہر ہو رہے ہیں۔ مالیاتی کھاتے کے خسارے (ایف اے ڈی) میکرو اکنامک اتار چڑھاؤ کا باعث بھی بنتے ہیں اور اِس سے نجی سرمایہ کاری میں اضافہ ہونے کے ساتھ معاشی ترقی میں رکاوٹ حائل ہوتی ہے۔ مالی سال دوہزارچوبیس مسلسل تیسرا سال ہے جس میں پاکستان کی معیشت یعنی ’جی ڈی پی‘ کے 8 فیصد کے قریب پہنچنے کا تخمینہ لگایا گیا ہے جو اپنی جگہ ریکارڈ ہے۔ 8300 ارب روپے یا 30 ارب ڈالر سے زائد کا ایف اے ڈی ملکی تاریخ میں سب سے زیادہ ہے۔ مالی سال دوہزاراُنیس کی طرح مالی سال بائیس میں ’ایف اے ڈی‘ کل جی ڈی پی کے 7.9 فیصد تک بڑھ گیا تھا اور یہ بدقسمتی سے دو دہائیوں میں سب سے زیادہ رہا۔ مالی سال دوہزارتیئس جی ڈی پی کا 7.8 فیصد ’ایف اے ڈی‘ رہا۔ یقینی طور پر‘ قومی فیصلہ سازوں کو اِس بارے میں فکر مند ہونا چاہئے۔ایلیویٹیڈ ’ایف اے ڈی‘ نے پاکستان کو سست روی‘ نجی و سرکاری سرمایہ کاری کی گرتی ہوئی سطح اور بڑھتے ہوئے قرضوں سے دوچار کر دیا ہے۔ پائیداری کے اہم اشارئیوں میں تکلیف دہ کمزوری کے ساتھ قرضوں کا بحران مزید بڑھ گیا ہے۔ قرضے سے محصولات‘ سود سے آمدنی اور خاص طور پر قرضوں کی ادائیگی و برآمدات کے تناسب سے ظاہر ہوتا ہے کہ ماضی کے مقابلے میں مالی سال دوہزارچوبیس میں پائیداری اور لیکویڈیٹی کے مسائل کہیں زیادہ سنگین تھے۔ اعداد و شمار کتنے ہی پریشان کن کیوں نہ ہوں‘ امید کی جا سکتی ہے کہ بجٹ 2025ء ماضی اور روایات سے مختلف ہوگا اور معاشی کمزوریوں کی سنگینی کو تسلیم کرے گا۔ جو مالیاتی بحران کا جواب بھی ثابت ہوگا۔ بجٹ سے ملک کے متوسط طبقے پر مالی بوجھ نہیں پڑے گا جبکہ مالیاتی اصلاح کی وجہ سے افراط زر (مہنگائی) کے دباؤ کو دور کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ لامحالہ‘ پاکستان میں بجٹ بحث وفاقی ٹیکس اور جی ڈی پی کے مایوس کن تناسب‘ ٹیکسوں میں فرق اور مختلف ذرائع سے آمدنی کی ایک ہی سطح کے امتیازی طریقہئ کار کے گرد گھومتی ہے۔ باوثوق ذرائع ٹیکس ڈھانچے کو مسخ شدہ اور غیر منصفانہ قرار دیتے ہیں۔ اہم سرکاری خدمات کی ادائیگی کے لئے مناسب وسائل فراہم کرنے میں بجٹ کی نااہلی پر بحث بھی کی جاتی ہے کیونکہ ہر بجٹ میں غیر پیداواری شعبوں کی حوصلہ افزائی کرکے معیشت کے اندر وسائل کی غلط تقسیم پر زور دیا جاتا ہے جہاں سینکڑوں ارب روپے کی غیر قانونی دولت پوشیدہ ہے۔ یہ تلخ حقائق ہیں اور اِن تمام شعبوں میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔ دانشور طبقے محصولات (ٹیکسوں) پر قومی بحث کا مشورہ دیتے ہیں اور اِنہیں صوبائی معاملہ قرار دینے کی وکالت کرتے ہیں۔ صوبائی محصولات ’جی ڈی پی‘ کے ایک فیصد سے بھی کم ہیں۔ اربن پراپرٹی ٹیکس‘ سروسز پر جنرل سیلز ٹیکس‘ موٹر وہیکل ٹیکس اور ایگریکلچر انکم ٹیکس سب صوبائی ڈومین ہیں۔ یقینی طور پر‘ ان میں بہت زیادہ صلاحیت ہے جس سے شاید ہی فائدہ اٹھایا جا سکتا ہو۔ سچ کہا جائے تو بجٹ 2025ء کے آئیڈیاز کی بحث میں مالی مساوات کے معیار اور مقدار جیسے مسائل پر توجہ مرکوز کرنا ہوگی۔ اخراجات کا جس پہلو سے بھی جائزہ لیا جائے یہ سوچا سمجھا اور تحقیق شدہ شعبہ ہے۔ سال 2010ء ساتویں ’این ایف سی ایوارڈ‘ کے بعد سے‘ خاص طور پر بڑھتے ہوئے مالی خسارے کے پیش نظر‘ حکام کو بجٹ اخراجات کا اندرون ملک جائزہ لینا چاہئے تھا۔ مالیاتی بوجھ کم کرنے اور قرضوں کی واپسی یقینی بنانے کے ساتھ ریاست اور اس کے شہریوں کے درمیان موجود سماجی معاہدے کو بہتر بنانے کے لئے ضروری ہے کہ حکومتی اخراجات میں کمی لائی جائے اور یہ انتہائی اہم ضرورت ہے۔بجٹ 2025ء میں جن مسائل پر توجہ دی جانی چاہئے اُن میں جاری ترقیاتی کاموں کو صوبوں کے ساتھ مل کر اور سبسڈی کا صوبوں کے ساتھ اشتراک عمل کا فریم ورک ہے۔ کئی سالوں سے بجلی‘ گیس اور زراعت میں سبسڈی کو ہدف بنانے کی بات کی جاتی ہے لیکن اس پر عمل درآمد میں ناکامی دیکھنے میں آ رہی ہے اور اُمید کی جا سکتی ہے کہ قومی وسائل ملک کے غریبوں کو فائدہ پہنچانے کے لئے زیادہ استعمال میں لائے جائیں گے۔ وقت جرات مندانہ اصلاحات کا ہے۔ کنٹری بیوٹری پنشن اسکیم‘ نئی بھرتیوں پر چند سال کے لئے پابندی اور تمام غیرضروری سرکاری عہدوں کو ختم کرنا اِن اصلاحات میں شامل ہونا چاہئے۔ اِس سے سول اور ملٹری بیوروکریسی کی مراعات کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ اس اہم کام کو باضابطہ بنانا ہوگا۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر خاقان حسن نجیب۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)

ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے کئی کمیٹیاں یہ کام کر رہی ہیں تاہم اِس کا عملی نتیجہ دیکھنے میں نہیں آ رہا۔ اِسی طرح نئے ڈویژنز اور اضلاع کی تشکیل پر بھی چند سال کے لئے پابندی عائد ہونی چاہئے۔ ویڈیو کنکٹیویٹی کی طرف منتقلی کے ساتھ سفر پر معنی خیز پابندی سے اربوں کی بچت ہوسکتی ہے اور یہ مالیاتی منظرنامے کے لئے بھی اچھا ہے۔ قومی سطح پر ترقیاتی اخراجات کے سائز اور ڈھانچے پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ فیصلہ سازوں کو اضافی ترقیاتی منصوبوں کے اعلان سے گریز کرتے ہوئے تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہئے جب تک کہ جاری منصوبے مکمل نہیں ہو جاتے اور مستقبل کے لئے ترقیاتی منصوبوں کا ڈیزائن اقتصادی مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا جائے۔ اِسی طرح ترقیاتی اخراجات کے معیار پر نظر ثانی کی بھی ضرورت ہے جس کا مقصد انسانی ترقی کو بہتر بنانا ہو۔