اکثر کہا جاتا ہے کہ قدرتی آفات کو روکا نہیں جاسکتا لیکن مناسب پالیسیوں کے نفاذ کے ذریعہ انہیں انسانی آفات میں تبدیل ہونے سے یقینا روکا جاسکتا ہے۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو اس کے موسمیاتی ایجنڈے کی کامیابی موسمیاتی تبدیلی کی پالیسی سے آگے تک پھیلی ہوئی ہے۔ یہ مختلف دیگر پالیسیوں پر بھی منحصر ہوتا ہے اور اس میں توانائی‘ پانی‘ زراعت‘ غذائی تحفظ‘ صحت‘ آفات کے انتظام سے متعلق پالیسیاں شامل ہوتی ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے پاکستان کی موجودہ پالیسی منقسم ہے اور اس پر نظر ثانی کی ضرورت ہے تاکہ قومی ترقی اور روزمرہ کی زندگیوں پر موسمیاتی تبدیلی کے بڑھتے ہوئے اثرات سے مؤثر انداز میں نمٹا جا سکے۔ اس کے لئے ادارہ جاتی پالیسی اور مالی انتظامات کا ازسرنو جائزہ لیا جانا چاہئے۔ اس ازسرنو جائزہ لینے میں اس بات کا اعتراف بھی ہونا چاہئے کہ انسانی اقدامات نے بنیادی طور پر موسمیاتی تبدیلی کی موجودہ صورت حال میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ آب و ہوا کی تبدیلی کے منفی اثرات کم کرنے کے لئے ’اسٹیٹس کو‘ برقرار رکھنا کافی نہیں ہوگا۔ پاکستان کی موسمیاتی حکمت عملی تین اہم قانون سازی اور ان قوانین پر عمل درآمد پر منحصر ہے: نیشنل کلائمیٹ چینج پالیسی 2021ء (این سی سی پی 2012ء کا تازہ ترین ورژن) ہے۔ سال 2013ء کی موسمیاتی تبدیلی کی پالیسی کے نفاذ کا فریم ورک اور پاکستان کلائمیٹ چینج ایکٹ 2017ء۔ ان تینوں فریم ورکس کا مقصد ملک کے سب سے کمزور شعبوں میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کم کرنے اور موافقت کو مربوط کرنا ہے
تاہم ان پالیسیوں پر حقیقی عمل درآمد کے لئے ’فعال مؤقف‘ کے بجائے ایک رد عمل کی نشاندہی ہو رہی ہے‘ جس کی خصوصیت وسیع اور پرجوش منصوبے ہیں جو مبہم مینڈیٹ اور ناکافی وسائل کی تقسیم کی وجہ سے کم پڑ جاتے ہیں۔ این سی سی پی اور ایف آئی سی سی پی کا دائرہ کار وسیع ہونے کے باوجود مخصوص‘ قابل عمل حکمت عملی‘ واضح ترجیحات اور آب و ہوا کی حکمرانی کے لئے عملی نقطہئ نظر کا فقدان ہے۔ مزید برآں‘ یہ فریم ورک واضح ٹائم لائنز یا احتساب کرنے میں بھی ناکام ثابت ہوئے ہیں‘ جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ قوانین پر عمل درآمد کرنے والے اس سے متعلق اپنی ذمہ داریوں کو کماحقہ ادا نہیں کرتے۔ یہ نگرانی خاص طور پر ’ایف آئی سی سی پی‘ میں واضح ہے‘ جو سفارش کردہ اقدامات کو بطور فوری ترجیحات سامنے لاتی ہے اور اس سے لے کر طویل مدتی حکمت عملیوں تک کے مراحل کی دو حصوں میں درجہ بندی کرتی ہے لیکن ان عارضی تقسیم کے لئے کوئی جواز فراہم نہیں کیا جاتا۔ قیادت کی ذمہ داریاں تفویض نہیں کی جاتیں یا ان پر پیشرفت کی نگرانی کے لئے معیاری اور مقداری اہداف بھی مقرر نہیں کئے جاتے۔ موسمیاتی تبدیلی کی وزارت‘ جو آب و ہوا سے متعلق اقدامات کرتی ہے وہ ترقیاتی ایجنڈے پر محیط ہوتے ہیں اور اس کے پاس مطلوبہ اختیارات یا وسائل موجود نہیں ہیں۔ اس کی وجہ سے عمل درآمد بھی ادھورا رہتا ہے اور ادارے اس بات کا اعتراف تو کرتے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے انسانی زندگیوں کو خطرہ ہے لیکن اس خطرے کو ختم یا کم کرنے کے لئے خاطرخواہ اقدامات نہیں کئے جاتے۔ قدرتی آفات میں حالیہ اضافہ تشویشناک ہے۔ حالیہ برسوں میں تباہ کن سیلاب اور ملک کے مختلف علاقوں میں خشک سالی کے واقعہ کسی بھی صورت معمولی نہیں جو ایک مضبوط‘ قابل قبول اور فعال آب و ہوا کی حکمت عملی کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں اگرچہ قدرتی آفات کے انتظام‘ قابل تجدید توانائی‘ شجرکاری اور صحت عامہ میں پیش رفت جیسے اقدامات کسی حد تک کامیاب رہے ہیں لیکن ان میں وسیع تر اسٹریٹجک ماحولیاتی پالیسی فریم ورک کی ضرورت ہے جو ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہونی چاہئے۔ منقسم کوششوں کے منقسم نتائج برآمد ہوتے ہیں اور اس خامی کی وجہ سے ممکنہ ہم آہنگی سے فائدہ اٹھانے میں بھی ناکامی ہی حاصل رہے گی۔ موسمیاتی تبدیلی کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے مستقبل کا نقطہ نظر‘ بشمول واضح‘ اصلاح شدہ پالیسیوں کی نگرانی‘ آب و ہوا کی تبدیلی کم کرنے کے لئے ضروری ہے۔ اس میں سال دوہزارتیس اور سال دوہزارپچاس تک حاصل ہونے والے مخصوص اہداف شامل ہونے چاہئیں۔ آب و ہوا سے متعلق سمارٹ طریقوں کا استعمال کرتے ہوئے زرعی زمین کا تناسب‘ قابل تجدید توانائی میں
اضافہ اور آب و ہوا کا مقابلہ کرنے کی سکت رکھنے والے بنیادی ڈھانچے میں اضافہ شامل ہے۔ خاص طور پر سیلاب زدہ اور خشک سالی سے متاثرہ علاقوں میں سمارٹ طریقوں کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ آب و ہوا سے متعلق اقدامات میں ذمہ داریاں بھی شامل ہیں‘ ہر وزارت کو سالانہ ان میٹرکس کے خلاف پیش رفت کی اطلاع دینے‘ شفافیت میں اضافہ اور پالیسی کی تاثیر کا مسلسل جائزہ لینے کے قابل بنانے کا پابند کیا جانا چاہئے۔ آب و ہوا سے پیدا ہونے والی آفات کا مؤثر طریقے سے مقابلہ کرنے کے لئے مربوط کوشش ضروری ہے۔ اس کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ متعلقہ وزارتوں اور محکموں‘ نجی شعبے‘ سول سوسائٹی اور بین الاقوامی شراکت داروں سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کی ذمہ داریوں کو واضح طور پر بیان کیا جائے اور ان کے درمیان مضبوط تعاون کو فروغ دیا جائے۔ اس طرح کی حکمت عملی نہ صرف قومی صورتحال کو بہتر بنائے گی بلکہ آب و ہوا کے چیلنجوں کے خلاف مضبوط اور متحد مؤقف بھی پیش کرے گی۔ پاکستان کا زراعت پر انحصار زرعی طریقوں میں تبدیلی کا متقاضی ہے۔ علاقائی تعاون کو پاکستان کی موسمیاتی پالیسی کا اسٹریٹجک جزو سمجھا جانا چاہئے۔ آب و ہوا کی قومی پالیسی پر نظر ثانی کرتے ہوئے پاکستان نہ صرف موسمیاتی تبدیلی کے فوری خطرات کا دفاع کر سکتا ہے بلکہ کاربن بارڈر ایڈجسٹمنٹ میکانزم کے تحت بین الاقوامی ذمہ داریوں کو بھی پورا کرنے میں کامیابی حاصل کر سکتا ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر عابد قیوم سلہیری۔ ترجمہ ابوالحسن امام)