ایمان،معافی اور مستقبل

چھ مئی میری یادوں میں نقش ہے۔ اس لئے نہیں کہ اُس دن ایک المیہ ختم ہوا بلکہ اس لئے کہ منصوبہ بندی کامیاب ہونے کے قریب تھی‘ سال دوہزاراٹھارہ کی اُس سہ پہر جب میں نارووال میں عوامی اجتماع میں شرکت کر کے نکلا تو ہجوم میں شامل ایک نوجوان نے بندوق نکال کر مجھ پر گولی چلا دی‘ گولی مجھے لگی  ایک قوم کے طور پر ہماری اجتماعی روح کو گھاؤ لگا۔ نفرت اور جھوٹی مذہبیت کی وجہ سے چلنے والی گولی کا مقصد صرف مجھے نشانہ بنانا نہیں تھا بلکہ اس کا مقصد پرامن اور متحدہ پاکستان کا خواب نشانہ بنانا تھا‘ جب میں اس تکلیف دہ لمحے پر غور کرتا ہوں، تو جس چیز نے مجھے سب سے زیادہ دکھ پہنچایا ہے وہ ذاتی درد نہیں بلکہ اس بات کی یاد ہے کہ ہم کس حد تک عدم برداشت کی طرف بڑھتے ہوئے الگ تھلگ ہو رہے ہیں، یہ تقسیم زہریلی ہے اور عدم رواداری گمراہ کن ہے۔ جس نوجوان نے مجھ پر گولی چلائی وہ کوئی غیر ملکی ایجنٹ، عادی مجرم یا عسکریت پسند نہیں تھا کہ جس نے پہاڑوں میں برسہا برس گزارے ہوں بلکہ وہ ہمارے اپنے ہی لوگوں کا حصہ تھا جو سیاسی نفرت کے کلچر کے نشے میں مبتلا تھا اور اِس ایک احساس نے مجھے گولی سے زیادہ ہلا کر رکھ دیا۔ میرا زندہ بچ جانا معجزہ تھا لیکن ہمارے معاشرے میں عدم برداشت کی بیماری موجود ہے۔ جب نعرے دلائل کی جگہ لیتے ہیں اور جب اختلاف رائے جرم بن جاتا ہے تو دراصل ہم اپنے پیارے پاکستان کے تانے بانے کو توڑ رہے ہوتے ہیں۔پاکستان آج ایک چوراہے پر کھڑا ہے۔ بڑے پیمانے پر پولرائزیشن حادثاتی نہیں۔ بعض گروہوں اور آوازوں نے سیاست کو ہتھیار بنایا ہے اور اسے اپنا مشن بنا لیا ہے‘ جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ ہم پاکستان کو تبدیل کرنے کیلئے کام کر رہے ہیں، ہم ایک ایسی قوم کی تعمیر کے لئے کام کر رہے ہیں جہاں اختلاف رائے تو ہو لیکن اختلافات کی بنیاد پر کوئی کسی کو واجب القتل نہ سمجھے۔ ذہن نشین رہے کہ جمہوریت مکالمے پر قائم ہوتی ہے، تباہی پر نہیں۔ حکومت ایسے اقدامات کر رہی ہے جس سے تعلیمی نظام، مذہبی اداروں اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز امن، استحکام اور رواداری جیسے مقاصد سے ہم آہنگ ہوں۔ ہم نہ صرف بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں بلکہ رواداری، ہمدردی، تنقیدی سوچ اور اختلاف رائے کے وقار جیسی اقدار میں بھی سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ میں پاکستانی عوام کی لامحدود صلاحیتوں پر یقین رکھتا ہوں لیکن ہم اس کا ادراک اس وقت تک نہیں کر سکتے جب تک ہم نفرت کے کلچر کا براہ راست مقابلہ نہیں کرتے، یہی وجہ ہے کہ ہم ایک ایسے قومی نصاب کو لانے کے لئے کام کر رہے ہیں جو تنقیدی سوچ سکھاتا ہے، نہ کہ اندھی تقلید کی تعلیم دیتا ہو۔ ہم علما ء کے ساتھ اتحاد کا درس دے رہے ہیں، تقسیم کا نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمیں انصاف کی ضرورت صرف عدالتوں میں نہیں بلکہ سماج اور ثقافت میں بھی ہے لہٰذا اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ کسی بھی شخص کو ان کے عقائد، ان کی پارٹی یا ان کے پیشے کی وجہ سے نشانہ نہ بنایا جائے۔ ایسا انصاف جو بلا خوف و خطر اختلاف کے حق کی حفاظت کرے۔ انصاف جو ہر جگہ دیکھا‘ سنا اور محسوس کیا جائے۔ کسی ٹوٹے ہوئے معاشرے کی تعمیر نو کا کوئی شارٹ کٹ نہیں ہوتا۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم میں سے ہر ایک‘ اپنے اندر دوسرے کو معاف کرنے کی خصوصیت پیدا کرے۔وفاقی حکومت نے بین المذاہب ہم آہنگی کے لئے قومی حکمت عملی تیار کی ہے۔ پاکستان بہت سے عقائد اور فرقوں کا گھر ہے، جن میں سے ہر ایک ہمارے معاشرے کے تانے بانے سے جڑا ہوا ہے۔ ہم آن لائن اور آف لائن دونوں جگہوں پر بین المذاہب ہم آہنگی کے فروغ کے لئے کام کر رہے ہیں۔ مکالمے کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے۔ اختلافات کا احترام کیا جا رہا ہے‘ اِس سلسلے میں نارووال امن ڈائیلاگ فورم قائم کیا گیا ہے اور اِسی طرز کے فورمز دیگر چھوٹے بڑے شہروں میں بھی قائم ہونے چاہیئں جو محبت اور رواداری کا پرچار کریں۔ میں اس حقیقت سے واقف ہوں کہ ڈیجیٹل دور میں نئی قسم کی نگرانی اور زیادہ محنت کی ضرورت ہے۔ آن لائن پلیٹ فارمز غلط معلومات اور سازشی نظریات کی افزائش گاہیں بن چکے ہیں ہم آن لائن نفرت انگیز پیغام رسانی کی نگرانی اور اس کا مقابلہ کرنے کے لئے مضبوط فریم ورک قائم کرنے پر بھی کام کر رہے ہیں جس کا مقصد اظہار رائے کی آزادی دبانا نہیں بلکہ سچ کی حفاظت اُور پرچار ہے۔ ہم اسکولوں اور برادریوں میں ڈیجیٹل خواندگی کے پروگرام تشکیل دے رہے ہیں جو شہریوں کو بااختیار بنائیں گے کہ وہ جو کچھ دیکھتے ہیں اس پر سوال اٹھائیں، ہیرا پھیری کی مخالفت کریں اور بات چیت میں ذمہ داری سے مشغول ہوں۔ بحیثیت قوم ہمیں ایک دوسرے کو معاف کرنا بھی سیکھنا چاہئے۔ پاکستان کا مستقبل ایک دوسرے کو خاموش کرنے میں نہیں بلکہ ایک دوسرے کی بات سننے پر منحصر ہے۔ (مضمون نگار وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی‘ ترقی اور خصوصی اقدامات ہیں۔ بشکریہ دی نیوز۔ تحریر احسن اقبال۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)