قرضوں سے چلنے والا عالمی مالیاتی نظام تباہی کے دہانے پر کیوں پہنچ رہا ہے (ذہن نشین رہے کہ فیٹ کرنسی حکومت کی طرف سے جاری کردہ ’پیسہ‘ ہوتا ہے جس کی درحقیقت کوئی قیمت نہیں ہوتی کیونکہ یہ کسی مادی شے کا جز نہیں ہوتا)جب کسی ملک کو بجٹ خسارہ‘ وبائی امراض‘ جنگ‘بینکوں کے بیل آ¶ٹ یا مارکیٹ کریش جیسے بحرانوں کا سامنا ہوتا ہے تو سیاست دان اور مرکزی بینک فطری طور پر زیادہ فیاٹ کرنسی چھاپتے ہیں۔ اس سے پیسے کی قدر میں کمی ہوتی ہے‘ حکومت‘مرکزی بینک اور کرنسیوں پر اعتماد کم ہوتا ہے۔ کمزور مالیاتی نظام تباہی کے زیادہ قریب چلا جاتا ہے۔
موجودہ مالیاتی نظام، جو قرضوں اور فریب میں گھرا ہوا ہے، بے نقاب ہو رہا ہے۔ فیٹ کرنسیاں ٹرمینل گراوٹ میں ہیں جبکہ سونا اور بٹ کوائن مالیاتی جھوٹ پر مبنی دنیا میں حتمی سچ بتانے والے کے طور پر ابھر رہے ہیں۔ فیٹ کرنسی کی کئی ایک کمزوریاں ہوتی ہیں جیسا کہ 1930ءاور 1940ءکی دہائی میں چین پر جاپان کے حملے کے دوران، جاپانیوں نے مقبوضہ معیشت کو کنٹرول کرنے کے لئے ”فوجی ین“ جاری کیا۔ یہ کرنسی، جسے صرف فوجی حکام کی پشت پناہی حاصل تھی، آپریشنز کی فنڈنگ کے لئے ضرورت سے زیادہ چھاپی گئی تھی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد جب جاپان پیچھے ہٹ گیا، تو ’فوجی ین‘ بیکار ہو گیا‘ جو فیٹ کی کمزوری کی واضح دلیل ہے۔
عالمی قرضے 300 کھرب ڈالر سے تجاوز کر چکے ہیں، سرکاری یقین دہانیوں کے باوجود افراط زر میں اضافہ جاری ہے اور سونے کی فی اونس قیمت 3500 ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے، جس سے کرنسیوں اور مرکزی بینکوں پر گہرے عدم اعتماد کی عکاسی ہوتی ہے۔ پیپلز بینک آف چائنا، سینٹرل بینک آف روس، ریزرو بینک آف انڈیا، سینٹرل بینک آف ترکی اور نیشنل بینک آف پولینڈ صرف پانچ بڑے بینکوں کے نام ہیں، جو سونے کی ذخیرہ اندوزی کر رہے ہیں جبکہ بٹ کوائن کو عوامی طور پر مسترد کیا جا رہا ہے۔
سوال: سیاست دان اور مرکزی بینک بٹ کوائن سے کیوں ڈرتے ہیں؟ جواب: بٹ کوائن کی 21 ملین سکوں کی فکسڈ سپلائی اور اس کا بڑھتا ہوا ہیش ریٹ‘ اب 700 ایکساہیش فی سیکنڈ سے تجاوز کر چکا ہے اور یہ فیٹ کرنسی کے مرکزی کنٹرول والے نظام کے لئے براہ راست چیلنج ہے۔ فیٹ کے برعکس، بٹ کوائن کی قیمت کسی ایک اتھارٹی کے ذریعہ طے نہیں کی جاتی۔ یہ کرنسی کی قیمت میں مالی گراوٹ جیسے اثرات سے بھی محفوظ رہتا ہے۔
سوال: سیاست دان اور بینکار بٹ کوائن سے کیوں ڈرتے ہیں؟ جواب: کیونکہ بٹ کوائن کا غیرمرکزی لیجر مرکزی کنٹرول کے خلاف (برعکس) ہے اور پیسے کی چھپائی بٹ کوائن کی کمی کو کم یا زیادہ نہیں کر سکتی ہے لیکن پھر بھی‘ بٹ کوائن کی مانگ بڑھ رہی ہے۔ سال دوہزار پندرہ سے دوہزارپچیس تک، بٹ کوائن نے تقریباً 70 فیصد کی حیرت انگیز کمپا¶نڈ سالانہ ترقی کی شرح (سی اے جی آر) ریکارڈ کی۔ 80 سے زیادہ کارپوریٹ ادارے اب بٹ کوائن کو اپنے خزانے میں رکھتے ہیں۔ چین، سنگاپور، سوئٹزرلینڈ، ایل سلواڈور، بھوٹان، روس، متحدہ عرب امارات، برازیل، جاپان، جنوبی کوریا، نائجیریا، تھائی لینڈ، پرتگال اور وینزویلا سمیت قومی ریاستیں اس کے حصول کی راہ پر گامزن ہیں۔ سوال یہ نہیں ہے کہ آیا فیٹ کرنسیاں ختم ہو رہی ہیں بلکہ سوال یہ ہے کہ ان کی جگہ کون لے گا۔ جی ہاں، سونا اب بھی ذخیرہ کیا جاتا ہے لیکن اسے ایک جگہ رکھنا اور کسی دوسری جگہ منتقل کرنا آسان نہیں ہوتا۔ جبکہ بٹ کوائن، پورٹیبلٹی اور سکیورٹی کے لحاظ سے آگے ہے۔
انتباہ: عالمی بینک اور آئی ایم ایف اپنی موجودہ شکل میں زیادہ عرصے تک موجود نہیں رہ سکیں گے۔ سیاست دان پرنٹنگ پریس سے چپکے رہ سکتے ہیں لیکن مالیاتی مارکیٹ کی ضرورت کچھ اور ہے۔ اِس مالیاتی سسٹم کا ری سیٹ ناگزیر ہو چکا ہے۔ سونا ”حقیقی قیمت“ رکھتا ہے۔ بٹ کوائن کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور قیمت (ہیش ریٹ) اس کے برقرار رہنے کا ثبوت ہے۔ موجودہ مالیاتی نظام کا زوال اب سوال نہیں رہا کہ کب تک مکمل ہو گا مگر وہ لوگ جو کرنسی کے غیر مرکزی مستقبل کی حمایت کرتے ہیں وہ نہ صرف باقی رہیں گے بلکہ ترقی بھی کریں گے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)