اِسلام آباد میں ماہرین اور تجزیہ کار مقبوضہ جموں و کشمیر کے علاقے پہلگام میں چھبیس سیاحوں کے المناک قتل کے بعد الزام تراشیوں پر حیران نہیں‘ بہت سے لوگ اسے فالس فلیگ آپریشن قرار دے رہے ہیں اور ایک ایسا حربہ بھی جسے بھارت نے تاریخی طور پر پاکستان کو بدنام کرنے کے لئے استعمال کیا ہے۔ ٹھوس ثبوت فراہم کئے بغیر بھارت نے جلد بازی میں پاکستان کو مورد الزام ٹھہرایا ہے ‘تاہم وسیع تر بین الاقوامی‘ علاقائی اور گھریلو سیاق و سباق کا تنقیدی تجزیہ کرنا ضروری ہے جس نے بھارت کو اپنے معمول کے بیانیے کو آگے بڑھانے کی ترغیب دی ہے۔عالمی حرکیات کا تجزیہ کرتے ہوئے، بہت سے لوگوں نے حملے کے وقت کو امریکی نائب صدر جے ڈی وینس کے بھارتی دورے سے جوڑا۔ اس سے قبل پاکستان کو بدنام کرنے کے لئے فالس فلیگ آپریشنز کے دوران ہائی پروفائل دورے ہوتے رہے ہیں لیکن بعد میں ان کا پردہ فاش ہو گیا۔ سن دوہزار میں امریکی صدر بل کلنٹن کے دورہ¿ بھارت کے دوران اسی نوعیت کے ایک حملے میں چھتیس سکھ شہری ہلاک ہوئے تھے۔ اسی طرح ستمبر دوہزارسولہ میں اڑی حملہ ہوا جس کے صرف دو ماہ بعد اسلام آباد میں ہونے والے سارک سربراہ اجلاس کو سبوتاژ کیا گیا بھارت یہ سب کچھ پاکستان کو علاقائی طور پر تنہا کرنے کے لئے کر رہا ہے۔ سال دوہزاراُنیس کے پلوامہ حملے کو سعودی ولی عہد کے دورہ¿ پاکستان کے موقع پر جوڑا جاتا ہے جسے بعد میں جموں و کشمیر کے گورنر نے داخلی سلامتی کی کوتاہیوں کا نتیجہ قرار دیا تھا لیکن اس کے باوجود وزیر اعظم مودی نے پاکستان دشمنی کو سیاسی و انتخابی فائدے کے لئے بطور ہتھیار استعمال کیا۔ اس تناظر میں پہلگام حملہ جانا پہچانا لگتا ہے جس میں بھارت پاکستان کو منفی انداز میں پیش کرتے ہوئے اِسے ”سرحد پار دہشت گردی“ کے حوالے سے لیبل کرنا چاہتا ہے۔ یہ بین الاقوامی دہشت گردی کی سرگرمیوں میں بھارت کے کردار کے برعکس ہے، جس میں امریکہ میں ہلاکتوں کی مصدقہ سازشیں اور کینیڈا و پاکستان میں ٹارگٹ کلنگز شامل ہیں۔ یہ سرگرمیاں تشویش ناک ہیں کیونکہ تحقیقات نے امیت شاہ اور را کے سینئر عہدیداروں سمیت بھارتی حکومت کے اہم حکام کے ملوث ہونے کی نشاندہی کی ہے، جنہوں نے خفیہ آپریشن کی اجازت دی تھی۔ اس کے باوجود پہلگام واقعہ کے بعد فوری ردعمل کے مقابلے میں بین الاقوامی مذمت نہیں ہو رہی۔ علاقائی طور پر بھارت اپنے ہمسایہ ممالک بالخصوص بنگلہ دیش، پاکستان اور چین کے درمیان مضبوط ہوتے ہوئے تعلقات کے بارے میں فکرمند رہا ہے۔ بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کے بعد کی حکومت نے اسلام آباد اور بیجنگ کے ساتھ قریبی رابطے قائم کئے اور ڈھاکہ کو خطے میں پاکستان مخالف اتحادی کے طور پر پروان چڑھانے کی نئی دہلی کی دہائیوں کی کوششوں کو ناکام بنا دیا۔بھارت داخلی طور پر انتشار کا شکار ہے اور بھارتی سماج کو بڑھتی ہوئی فرقہ وارانہ کشیدگی کا سامنا ہے، خاص طور پر بھارتی حکومت کی طرف سے مسلم وقف ایکٹ 1923ءمنسوخ کرنے اور وقف ایکٹ 1995ءمیں ترمیم کے بعد سے صورتحال خاصی تشویشناک ہے۔ مودی حکومت کا دعویٰ ہے کہ مذکورہ اصلاحات کا مقصد بدعنوانی سے لڑنا ہے لیکن مسلم کمیونٹی کو ڈر ہے کہ یہ مسلمانوں کی ملکیت والی جائیدادوں کو ضبط‘ انہیں مسمار کرنے کی ایک اور کوشش ہے۔ انتخابات میں پاکستان دشمنی پر مبنی بیانیئے سے تاریخی طور پر فائدہ اُٹھانے کے لئے ’بی جے پی‘ خاصی ماہر سمجھی جاتی ہے۔ حال ہی میں 2019ءاور 2024ءکے لوک سبھا انتخابات کے دوران بھی ایسا ہی کیا گیا۔ ایسا لگتا ہے کہ پہلگام حملہ اکتوبر نومبر 2025ءمیں ہونے والے بہار کے اہم ریاستی انتخابات سے پہلے رائے دہندگان کو متحرک کرنے کے لئے کیا گیا ہے کیونکہ لوک سبھا میں ریاست بہار کی خاصی اہمیت ہے اور ’بی جے پی‘ کے لئے بہار میں جیت ضروری ہے۔ علاقائی پارٹیوں راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) اور جنتا دل (یونائیٹڈ) کے کمزور ہونے اور رائے دہندگان کی ترجیحات میں تبدیلی کی وجہ سے بی جے پی بہار اور بہاریوں کی جیت پر نظریں جمائے ہوئے ہے۔ اس کا مقصد اونچی ذات کے ہندو ووٹ بینک کو مستحکم رکھنا ہے جبکہ شمولیت کے بیانیے کے تحت دیگر پسماندہ طبقات اور انتہائی پسماندہ طبقات کی ہمدردیاں بھی حاصل کرنا ہیں‘ جس سے دیگر پارٹیوں کے رائے دہندگان کو بی جے پی کی حمایت کے لئے قائل کیا جا سکے
پاکستان مخالف اور مسلم مخالف بیانیے کے ساتھ ہندوتوا کی سیاست سے جڑا ہوا قوم پرستی کا جذبہ بہار میں انتخابی کامیابی کے لئے بی جے پی کی حکمت عملی معلوم ہوتا ہے۔کشمیری نکتہ¿ نظر سے دیکھا جائے تو بھارت پہلگام حملوں کو اقوام متحدہ کی جانب سے دیئے گئے حق خودارادیت کو دہشت گردی کے طور پر پیش کرنے کے لئے استعمال کرنا چاہتا ہے۔ کشمیری رہنما¶ں نے بارہا شہریوں، غیر ملکیوں اور سیاحوں کے خلاف حملوں کی مذمت کی ہے اور اس بات پر زور دیا ہے کہ اس طرح کے اقدامات تحریک آزادی کے مقاصد سے مطابقت نہیں رکھتے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں ہونے والا حملہ نہ صرف نو لاکھ سے زائد تعینات فوجیوں کی ناکامی کو اجاگر کرتا ہے بلکہ بھارت کے اس بیان کی ناکامی کو بھی اجاگر کرتا ہے کہ آرٹیکل 370 اور 35 اے کی منسوخی کے بعد کشمیر میں ”معمول کی صورتحال“ لوٹ آئی ہے۔(بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ماہین شفیق۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)