پانی پر جنگ

بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی معطلی پاک بھارت کشیدگی میں اضافے کا باعث بنی ہے‘ جس کے سنگین علاقائی نتائج ممکنہ طور پر تنازعات کی شکل اختیار کرسکتے ہیں‘ معاہدے کے تحت 1960ء سے دریائے سندھ کے پانی کی تقسیم کا انتظام کیا گیا تھا جس کے تحت پاکستان کو بیسن کا 80 فیصد پانی فراہم کیا گیا جس سے اسکی زراعت‘ پن بجلی اور شہری ضروریات کو پورا کیا جا سکے۔ پاکستان کی معیشت اور غذائی تحفظ کا دارومدار دریائے سندھ کے نظام پر ہے جو اس کی 90 فیصد زیر کاشت زمین کو سیراب کرتا ہے اور 237 ملین افراد کی کفالت کرتا ہے۔ معطلی سے سندھ‘ جہلم‘ چناب سے پانی کا بہاؤ خطرے میں پڑ گیا ہے‘ فصلوں کے گرنے‘ شہری پانی کی قلت اور پن بجلی کی کمی کا خطرہ ہے۔ تربیلا اور منگلا جیسے ڈیموں کے ذریعے صرف 10 فیصد پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کیساتھ‘ پاکستان کو پانی کے بہاؤ میں کمی کے شدید خطرے کا سامنا ہے‘ جس سے لاکھوں لوگوں کیلئے غذائی عدم تحفظ اور معاشی عدم استحکام کا خطرہ ہے۔ جی ڈی پی میں 23 فیصد حصہ ڈالنے والا اور 68 فیصد دیہی مزدوروں کو روزگار دینے والا زرعی شعبہ تباہ ہو سکتا ہے‘ جس سے دیہی بیروزگاری‘ نقل مکانی اور شہری بدامنی پیدا ہو سکتی ہے۔ بھارت کے اس اقدام سے اسے مغربی دریاؤں پر یکطرفہ کنٹرول مل گیا ہے‘ جس سے ڈیم منصوبوں (رتلے‘ پکل دل) کی تعمیر میں تیزی آئے گی اور ممکنہ طور پر پانی کا رخ موڑا جا سکے گا۔ پہلے سے ہی پانی کی قلت اور سیاسی طور پر کمزور پاکستان عالمی بینک کی ثالثی کے ذریعے جوابی کاروائی کر سکتا ہے۔ ایک طویل معطلی پاکستان کو مایوسی کی طرف بھی دھکیل سکتی ہے‘ جس سے آبی وسائل کو محفوظ بنانے یا بھارتی منصوبوں کے خلاف جوابی کاروائی کیلئے فوجی کاروائی کی حوصلہ افزائی ہوسکتی ہے۔ جوہری ہتھیاروں سے لیس دونوں ممالک اور کشمیر میں کشیدگی کے حل نہ ہونے کی وجہ سے پانی کی قلت وسیع تر تنازعات کیلئے محرک کا کردار ادا کر سکتی ہے۔ پاکستان کی آبی گورننس اداروں‘ بنیادی ڈھانچے کی ترقی کے فقدان اور موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کیلئے ناکافی ردعمل کی وجہ سے بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ اسکے برعکس بھارت نے پانی کے بنیادی ڈھانچے کی جارحانہ توسیع کی پالیسی پر مسلسل عمل کیا ہے۔ پاکستان کو پانی کی دستیابی بہتر بنانے کیلئے بڑے آبی ذخائر اور ہزاروں چھوٹے ڈیموں کی تعمیر کرنے چاہئیں۔ تیسرا‘ حکومت کو جدت اپنانا اور اسے فروغ دینا چاہئے۔ زرعی پانی کے ضیاع کو کم کرنے کیلئے ڈرپ اور اسپرنکل آبپاشی کو سبسڈی دی جانی چاہئے۔ چوتھا‘ قانونی اور معاشی ذرائع کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔ پانچواں‘ کمیونٹی کی شرکت اور عوامی تعلیم پر زور دیا جانا چاہئے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر عطا الرحمان۔ ترجمہ ابوالحسن امام)