معاشی اصلاحات: نیا آغاز

پاکستان کی معاشی گراوٹ پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ سیاسی بے چینی اور عدم استحکام سے معیشت کو نقصان پہنچ رہا ہے اور وفاق بھی تناؤ کا شکار ہے۔ دہشت گردی کی ایک نہ ختم ہونے والی لہر دوبارہ اُٹھی ہوئی ہے جو امن اور استحکام کو متاثر کر رہی ہے۔ مسلح افواج کے جوان اور افسران پاکستان کی خودمختاری اور سالمیت کے تحفظ کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں۔ نائن الیون کے بعد افغانستان پر امریکی حملے کے بعد شروع ہونے والی دہشت گردی کے خلاف یہ طویل جنگ پاکستان کے کونے کونے تک پھیل چکی ہے اور شمال مغربی سرحدوں کے ساتھ شورش زدہ علاقوں میں امن کے مختصر وقفے کے ساتھ جاری ہے۔ ابتدائی طور پرایک کولیشن سپورٹ فنڈ نے اس جنگ کی لاگت ادا کی لیکن اب یہ پاکستان پر بوجھ ہے۔ اس جنگ کے معاشی اثرات نے ملکی معیشت کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے اور اِسے قرضوں کے جال میں دھکیل دیا ہے۔ یہ قرض اب پاکستان کی معاشی ترقی کے لئے خطرہ بن چکا ہے کیونکہ غیر ملکی اور مقامی قرضوں کی ادائیگی کے لئے پاکستان کو مزید قرضوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ مزید ٹیکس لگانے اور یوٹیلٹیز کی لاگت میں اضافے کی بھی ضرورت ہے جس کی متحمل معیشت مشکل سے برداشت کر سکتی ہے۔ ریاست کی توجہ دہشت گردی کے خلاف جنگ پر مرکوز ہے۔ اس کے پاس سماجی اور معاشی ترقی اور لوگوں کی فلاح و بہبود کے لئے وسائل نہیں‘ خاص طور پر نوجوانوں کو جنہیں تعلیم‘ ملازمتوں اور مہذب زندگی کی ضرورت ہے۔ متعدد مسائل کا مجموعی اور نتیجہ خیز اثر سیاسی عدم استحکام اور غیر واضح عدم اطمینان ہے جو سیاسی تحریکوں اور سماجی پولرائزیشن کی صورت پالیسی سازوں کے لئے چیلنج ہے۔پاکستان کی معیشت اور سیاست ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ 1947ء کے بعد سے شاید ہی کسی سیاسی حکومت نے اپنی مدت پوری کی ہو یا تو حکومتیں تحلیل ہوئیں یا وسط مدتی تبدیلیاں کی گئیں۔ معاشی ترقی کا انحصار سیاسی استحکام اور قانون کی حکمرانی پر ہے جو معاشی منصوبہ بندی کی راہ ہموار کرتی ہے۔ خوشحالی معاشی ترقی سے آتی ہے جو عدم اطمینان کم کرنے میں مدد کرتی ہے۔ پاکستان کی سیاسی معیشت کا سب سے اہم پہلو پالیسی فیصلوں کے لئے ملکیت‘ قانونی حیثیت اور احتساب ہے۔ سول حکومتوں اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان مفادات کے ٹکراؤ کی وجہ سے اس شعبے میں ہمیشہ الجھن رہی ہے۔ پاکستان میں زیادہ تر آمرانہ حکومتیں رہی ہیں اور سویلین سیٹ اپ کو اقتدار کی منتقلی کے بعد بھی آمریت کے سائے پالیسی ڈومین پر موجود رہے۔ اپنے جغرافیائی محل وقوع اور معاشی کمزوری‘ بھارت کے ساتھ آبی تنازعات اور کشمیر پر جنگوں کی وجہ سے سرد جنگ میں رضاکارانہ کردار کے باعث‘ پاکستان سکیورٹی ریاست بن گیا جس کے لئے اس کا بہت زیادہ انحصار غیر ملکی فوجی امداد اور قرضوں پر تھا۔ اس کی محدود معیشت بڑے فوجی سازوسامان کی مسلسل خریداری نہیں کر سکتی تھی کیونکہ دفاعی ضروریات پورا کرنے کے لئے کوئی صنعتی اڈہ نہیں تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان نے سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کی مستقل موجودگی‘ معاشی و خارجہ پالیسی اور وسائل کی تقسیم میں اسٹیبلشمنٹ کے اثر و رسوخ بڑھتا چلا گیا۔ مزید برآں‘ معیشت اور سلامتی کے پیچیدہ معاملات سنبھالنے اور ذمہ داری بانٹنے کی اہلیت کے ساتھ مخلص سیاسی قیادت کی کمی نے بھی معاشی استحکام کو متاثر کیا۔ اداروں اور سیاست دانوں کے درمیان اعتماد کا مستقل فقدان پایا جاتا ہے۔ پاکستان اب مکمل طور پر غیر ملکی قرضوں پر انحصار کر رہا ہے لیکن ہر چیلنج غور و فکر اور اس کے نتیجے میں تبدیلی کا موقع بھی لاتا ہے۔ پاکستان کے مفاد میں متضاد مفادات کو یکجا کرنے کی ضرورت ہے‘ پورے پالیسی ڈومین کا جائزہ لینے اور اصلاح کرنے کی ضرورت ہے۔ نئے آغاز کے لئے ڈی جور اور ڈی فیکٹو پاور کے تضاد کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ حقائق اور سچائی سے انکار کی عادت فیصلے کی غلطی کا سبب بنتی ہے۔ غیر ملکی اور مقامی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لئے اقدامات کی قانونی حیثیت اور مطلوبہ اعتماد کا تقاضا ہے کہ آئین کی بالادستی کو نہ صرف قبول کیا جائے بلکہ خلوص کے ساتھ نافذ کیا جائے۔ کسی بھی قسم کی ضرورت کے تحت کوئی انحراف جائز نہیں ہے۔ خارجہ اور اقتصادی پالیسیوں کا مکمل جائزہ لیا جائے اور انہیں ازسرنو مرتب کیا جائے۔ چیک اینڈ بیلنس پیدا کرنے کے لئے پارلیمانی نگرانی یقینی بنائی جائے۔ مطلق العنان حکمرانی روکنے کے لئے غور و خوض اور بحث و مباحثہ کے کلچر کی حوصلہ افزائی ہونی چاہئے۔ تمام ہمسایوں کے ساتھ تعلقات معمول لانے چاہیئں اُور عدم مداخلت کی پالیسی پر سختی سے عمل کیا جائے۔ یہ سافٹ پاور کا دور ہے۔ باہمی اقتصادی مفادات علاقائی سالمیت کو محفوظ بنانے کے نئے ہتھیار ہیں۔ پاکستان کا آئین متفقہ سیاسی دستاویز ہونا چاہئے متعدد ترامیم کی وجہ سے پاکستان کا آئین بہت سے شعبوں کے لئے ناقابل عمل ہو کر رہ گیا ہے‘ جس کی وجہ سے تناؤ پیدا ہوا ہے اور آئین کو نافذ کرنے میں  بھی رکاوٹ پیدا ہوئی ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو اپنے کردار کو مینجرز سے ریگولیٹرز میں تبدیل کرکے اپنے سائز کو کم کرنا ہوگا۔ سول حکومت کی تشکیل کا واحد مقصد لوگوں کی زندگی‘ آزادی اور خوشی کو محفوظ بنانا ہے۔ جب لوگ انتہائی غربت اور مسلسل خوف میں زندگی بسر کر رہے ہیں اور حکومتوں کی مالی اعانت کے لئے بھاری ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں تو آزادی کا کوئی مطلب نہیں ہے۔ آزادی صرف سچائی کے ذریعے ہی حاصل کی جا سکتی ہے‘ وقت آگیا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو الگ الگ ٹیکس کے اختیارات دیئے جائیں اور حکومتی اخراجات میں چیک اینڈ بیلنس رکھا جائے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ایم وقار رانا۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)