سردار اختر مینگل حکومت سے مبینہ طور پر ناراض ہو کے عازم دبئی ہو گئے ہیں‘ کئی اپوزیشن لیڈروں نے ان سے درخواست کی کہ وہ قومی اسمبلی سے استعفے کا اپنا فیصلہ واپس لیں پر انہوں نے ان کی اس درخواست کو در خور اعتنا نہ سمجھا‘ یہ بڑی عجیب بات ہے کہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سیاسی رہنما جو مختلف قبائل سے تعلق رکھتے ہیں جب خود بلوچستان کے ایوان اقتدار میںہوتے ہیں اور اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہوتے ہیں تو اس وقت تو انہیں بلوچستان کے عام آ دمی کے مسائل دکھائی نہیں دیتے پر جوںہی ان کی مرکز سے کسی بات پر ان بن ہو جاتی ہے تو پھر ان کو ان کے مسائل اور محرومیوں کی یاد ستانے لگتی ہے‘ جہاں تک دبئیءکا تعلق ہے تو وہ ایک عرصے سے اس خطے کے راندہ درگاہ سیاسی زعما ءکی پسندیدہ آماجگاہ بن گئی ہے‘ کسی زمانے میں وہ بادشاہ یا دیگر حکمرانوں کا اپنے ملکوں میں لوگ قافیہ تنگ کر دیا کرتے تو وہ روم میں جا کر قیام اختیار کرتے جیسا کہ مصر کے شاہ فاروق افغانستان کے ظاہر شاہ وغیرہ وغیرہ ۔اب روم کی جگہ دبئی نے لے لی ہے ‘نام گنوا نے سے قرطاس کا ضیاع ہو گا‘ ہر ایک کو پتہ ہے کہ دھن کے پجاری وہ کون کون سے سابقہ حکمران تھے یا ہیں جنہوں نے اپنا سرمایہ دوبئی میں انویسٹ کر رکھا ہے کہ جہاں کوئی بھی انویسٹ کرنے والے سے نہیں پوچھتا کہ انہوں نے یہ مال و متاع کیسے اور کہاں سے کمایا ہے اور کیا اس پر واجب ٹیکس اپنی حکومت کو ادا بھی کیا ہے؟ جہاں تک بلوچستان کی پسماندگی کا تعلق ہے ‘اس سے متعلق کفایت شعاری کے بارے میں حکومت نے جو چھ اہم اقدامات لئے ہیں وہ قابل ستائش ہیں‘ نئی آ سامیوں کی تخلیق پر پابندی‘ خالی آسامیوں کا خاتمہ ‘ نئی گاڑیوں کی خریداری پر پابندیاں ‘غیر ضروری بیرونی دوروں پر پابندی اور سرکاری خرچ پر باہر علاج پر پابندی لگانا وقت کا تقاضا تھا ‘پرہمارا یہ المیہ رہا ہے کہ اس قسم کے فیصلے تو اکثر کر لئے جاتے ہیں ‘پر ان پر عمل درآمد شاذ ہی ہوتا ہے۔ اب یہ میڈیا کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ان پر نظر رکھے اور اگر ان پر عمل درآمد نہ کرنے والوں کے ناموں سے قوم کو آگاہ کرے اور اس کے ساتھ ساتھ ارباب اقتدار جب بھی کابینہ کی میٹنگ کیا کریں تو اس کے ایک ایجنڈے پر ان اقدامات پر فالو اپ ایکشن پر بھی بحث ضروری ہے۔ افغانستان اور ایران چونکہ ہم سے بارڈر شیئر کرتے ہیں اور آئے دن پاک افغان اور پاک ایران بارڈر پر کوئی نہ کوئی رولا اٹھتا ہے ‘لہٰذا ان دو ممالک میں ہمیں ایسے سفارتکار تعینات کرنے چا ہئیںکہ جو ان دونوں ممالک میں بسنے والے قبائل کے رسم و رواج سے کما حقہ بلد ہوں ۔آئیے اب ذرا ملکی اور عالمی معاملات پر ایک نظر ڈال لی جائے لیکن اس سے پیشتر اس تلخ حقیقت کا ذکر بے جا نہ ہوگا کہ یہ دنیا جی لگانے کی جگہ نہیں ہے ‘ ایک شاعر کی وصیت کے مطابق اس کی قبر پر جو کتبہ نصب کیا گیااس پر اس نے کیا خوب بات لکھوائی کہ ۔” دو گز زمین ہی سہی میری ملکیت تو ہے ۔اے موت مجھے تو نے زمیندار کر دیا“بنگلہ دیش کی سابقہ وزیر اعظم کچھ عرصے سے مکافات عمل کا شکار ہیں‘ خداکی زمیں ان پر تنگ ہوتی نظر آ رہی ہے ‘ماسوائے بھارت کے کوئی دوسرا ملک ان کو سیاسی پناہ دینے کے لئے تیار نظر نہیں آ تا ‘بھارت بھی آ خر کب تک ان کو پناہ فراہم کر کے بنگلہ دیش میں بسنے والی ایک بڑی آبادی کو نالاں کرے گا کہ جو حسینہ واجد کے ظلم و ستم اور جبر کا کافی عرصے تک شکار رہی ہے ۔وزیر اعظم صاحب کویہ معمول بنا لینا چاہئے کہ وہ ہر ماہ بلا ناغہ دو چار دن کے لئے بلوچستان کے مختلف علاقوں میں اپنا کیمپ آفس لگایا کریں جہاں وہ کھلی کچہری بھی لگائیں اور اپنی کابینہ کے اراکین کو بھی ایسا کرنے کی تلقین کریں ‘بلوچستان میں اربوں روپے کی سرمایہ کاری سے کثیر المقاصد ترقیاتی منصوبوں پر کام ہو رہا ہے جن کی مانیٹرنگ از حد ضروری ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ مانیٹرنگ جس شعبے میں بھی ہوگی وہاں نتائج سو فیصد عوام کے حق میں ہوں گے ۔
اشتہار
مقبول خبریں
اچھی شہرت کے حامل افسران
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
ایک اچھی تجویز
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
سائبر اٹیک‘جدیدترین دہشت گردی
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
دور اندیشی سے عاری قیادت
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
ذرانم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
بیروت،بربادی کے دہانے پر
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
موسمیاتی تبدیلی اور ہماری ذمہ داریاں
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
سفر کا محفوظ نظام ناگزیر
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
عالمگیر جنگ کے بادل
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
ہر چمکنے والی چیز سونا نہیں ہوتی
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ