بلیک ہول کی خوراک بنتا سورج پہلی بار کیمرے میں قید، خوفناک منظر

بلیک ہول کی خوراک بنتے سورج کے حیرت انگیز مناظر ٹیلی اسکوپ میں قید ہوگئے جس نے سائنسدانوں کو حیران کردیا۔

ایک خوفناک دریافت جو سائنسی افسانے کی طرح لگی، حال ہی میں ماہرین فلکیات نے ناسا کے ہبل اسپیس ٹیلی اسکوپ کا استعمال کرتے ہوئے کئی میل دور ایک بہت بڑے بلیک ہول کو دیکھنے میں کامیاب ہوئے جو زمین سے 600 ملین نوری سال کی دوری پر سورج کو نگلنے کے عمل کے دوران دیکھا گیا۔

یہ حیران کن واقعہ جسے ٹائیڈل ڈسٹرکشن ایونٹ (TDE) کہا جاتا ہے اور جس کا نام AT2024tvd رکھا گیا ہے،ہماری کہکشاں سے کئی میلوں دور پیش آیا، جس نے گھومتے ہوئے بلیک ہولز کی ایک ایسی پاپولیشن کو بے نقاب کیا جو پہلے پوشیدہ تھی۔

اس بلیک ہول کے بارے میں ماہرین فلکیات نے انکشاف کیا کہ یہ ہمارے سورج کے ایک ملین گنا ماس کے برابر ہے، جو کہکشاں کے تاریک کنارے پر چھپا پایا گیا۔

اس بلیک ہول کے بارے میں اس وقت تک معلوم نہیں چل سکا جب تک ایک ستارہ اس کے بہت قریب نہ پہنچا، پھر اس ستارے کو بلیک ہول کی زبردست کشش ثقل نے کھینچ کر اور تیز کرکے ”اسپاگٹیفیکیشن“ کے عمل سے گزارتے ہوئے پارا پارا کر دیا۔ اس ستارے کے ملبے کو ایک گرم اور گھومتے ہوئے ڈسک میں کھینچ لیا گیا، جو ایک الٹرا وایلیٹ اور نظر آنے والی روشنی کے دھارے کو پیدا کر رہا تھا جسے زمین اور خلا میں موجود ٹیلی اسکوپوں نے قید کرلیا۔

ماہرین فلکیات نے مختلف مشاہداتی آلات کا استعمال کیا، اور اس کے اصل مقام اور دوری کی تصدیق کرنے کے لیے جن میں ناسا کا چندرا ایکس رے آبزرویٹری اور NRAO ویری لارج ایری شامل تھے۔ ہبل نے تیز نظر سے TDE کی نشاندہی کی، جب کہ چندرا نے اسی مقام سے ایکس ریز کا پتہ لگایا، جس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ کہکشاں کا مرکز اس کا ماخذ نہیں ہے۔

مفکرین کا ماننا ہے کہ ایسے بھٹکنے والے بلیک ہولز پچھلے کہکشانی ملاپوں کے باقیات ہو سکتے ہیں یا دوسرے بلیک ہولز کے ساتھ تعامل سے پیدا ہونے والے کشش ثقل کے ”کِک“ کا نتیجہ ہو سکتے ہیں۔ ان کا دریافت کائناتی مرکزوں سے دور بلیک ہولز کو تلاش کرنے کے نئے راستے کھولتا ہے۔