اگر وقت میں سفر ممکن ہو جائے تو 16ویں صدی کے یورپ کا ایک ایسا لمحہ دیکھنے کو ملے گا جس نے انسانی تاریخ کے کیلنڈر کو ہی بدل کر رکھ دیا۔
یہ اکتوبر 1582 کی بات ہے، جب یورپ کی کیتھولک سلطنتوں، خصوصاً اٹلی، اسپین، فرانس اور پرتگال کے شہری رات کو 4 اکتوبر کو سوتے ہوئے گئے، مگر اگلی صبح ان کی آنکھ 15 اکتوبر کو کھلی۔ تقویم میں اچانک 10 دن غائب ہو گئے — کوئی 5 سے 14 اکتوبر کے درمیان پیدا نہیں ہوا، نہ مرا، نہ کسی کی شادی ہوئی۔ یوں یہ دن "وقت" سے مٹا دیے گئے۔
یہ انوکھا فیصلہ رومی کیلنڈر (جولیئن کیلنڈر) کی ایک سائنسی خامی کو درست کرنے کے لیے کیا گیا، جسے جولیس سیزر نے 45 قبل مسیح میں نافذ کیا تھا۔ ہر سال 11 منٹ کی معمولی گڑبڑ کئی صدیوں میں موسموں اور تقویم کے بیچ واضح فرق پیدا کر چکی تھی۔ مذہبی تقریبات، خصوصاً ایسٹر، موسم بہار سے ہٹ کر آنے لگیں تھیں۔
1582 میں کیتھولک کلیسا کے سربراہ پوپ گریگوری سیزدہم نے ایک نئے کیلنڈر کا اعلان کیا، جو سورج کی گردش کے مطابق درست ترین وقت کا تعین کرتا تھا۔ اس کے تحت 10 دن حذف کیے گئے اور یوں گریگورین کیلنڈر کی ابتدا ہوئی۔
ابتداً صرف چند ریاستوں نے اسے اپنایا، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ دنیا بھر نے اسے اختیار کر لیا۔ برطانیہ اور اس کی نوآبادیات نے 1752 میں، جب کہ روس اور یونان نے 20ویں صدی میں اسے نافذ کیا۔ آج یہی کیلنڈر دنیا میں سب سے زیادہ مستعمل ہے۔
یہ قدم اس بات کا ثبوت تھا کہ سائنس، علم اور فیصلہ سازی وقت کو بھی بدل سکتی ہے، اور کبھی کبھار ایک دستخط پوری دنیا کے لیے ایک نیا وقت شروع کر دیتا ہے۔